سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالتی اصلاحات کے لیے اپنی تجاویز پیش کردی ہیں، عدالتوں میں شام کی شفٹ شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطا اور سینئر وکیل حافظ احسان کھوکھر نے سپریم کورٹ میں 12 صفحات پر مشتمل تحریری تجاویز جمع کرا دی ہیں جن میں عدالتی فیسوں میں اضافے کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی اصلاحات کا ہر قدم سائلین کی ضروریات اور توقعات کے مطابق اٹھایا جائے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
تجاویز میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عدالتی فیسوں میں اضافہ آئین کی شق 37-ڈی کے منافی ہے جو سستے اور فوری انصاف کی ضمانت دیتی ہے۔ ان کے مطابق ناروے اور جرمنی میں عدالتی فیس نہایت معمولی ہے جبکہ انصاف کی رسائی صرف مالی طور پر مضبوط افراد تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ سہولت تمام شہریوں کو حاصل ہونی چاہیے۔
عدالتوں میں شام کی شفٹ کی تجویز
تحریری تجاویز میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں فوری شنوائی والے مقدمات کے لیے شام تک عدالتیں لگتی ہیں، اسی طرز پر سپریم کورٹ میں بھی شام کو عدالتی بنچز تشکیل دیے جائیں۔
کیسز کے فیصلے کی مدت
تجاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر ہر اپیل کا فیصلہ ایک سال میں جبکہ سول اپیل کا فیصلہ 6 ماہ میں کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور میں چیف جسٹس آف پاکستان کی زیر صدارت اجلاس، عدالتی اصلاحات پر زور
بار ایسوسی ایشن نے تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ میں جب کوئی مقدمہ کاز لسٹ میں فکس ہوجائے تو غیر معمولی صورتحال یا ایمرجنسی کے بغیر اسے ڈی لسٹ نہ کیا جائے، اور اگر ڈی لسٹ ہو تو لازمی طور پر اگلے ورکنگ ڈے میں دوبارہ فکس کیا جائے۔
شارٹ آرڈر فیصلے کے دن جاری کیا جائے
پیش کردہ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقدمے کا شارٹ آرڈر اُسی دن جاری ہونا چاہیے جبکہ تفصیلی فیصلہ ایک ماہ کے اندر سامنے آنا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں دو ماہ کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائیں اور ہر مقدمے کا فیصلہ ایک سال کے اندر سنا دیا جائے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی اوپن پروسیڈنگ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ججز کے احتساب کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی اوپن پروسیڈنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف آنے والی شکایت پر چھ ماہ کے اندر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی اصلاحات میں عوامی رائے جاننے کے لیے سپریم کورٹ کا آن لائن فیڈ بیک فارم جاری
سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ عدالتی اصلاحات اور مؤثر نظام انصاف کے بغیر عوام تک سستا اور فوری انصاف پہنچانا ممکن نہیں۔