چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکُن نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کجّا کلس کے حالیہ بیانات نظریاتی تعصب پر مبنی اور کھلے عام تصادم کو ہوا دینے والے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:چین کی فوجی پریڈ متاثر کن تھی، صدر شی کی تقریر میں امریکا کا ذکر ہونا چاہیے تھا، ٹرمپ کا شکوہ
یاد رہے کہ بدھ (3 دسمبر)کے روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چینی صدر شی جن پنگ، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ چین کے شہر تیانجن میں ایک فوجی پریڈ میں شرکت کی۔
یہ پریڈ دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کی شکست کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی۔
When asked to comment on US President Donald Trump's claim about the Chinese, Russian and North Korean leaders "conspiring against the US" on the occasion of China's V-Day commemorations on September 3, the Chinese Foreign Ministry spokesperson Guo Jiakun said on Thursday that… pic.twitter.com/JMMLNFBEKA
— Global Times (@globaltimesnews) September 4, 2025
بعد ازاں برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کلس نے اس اجلاس کو ’قواعد پر مبنی عالمی نظام کے لیے براہِ راست چیلنج‘ قرار دیا اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اس ’نئی حقیقت‘ کا سامنا کرے۔
جمعرات کو بیجنگ میں پریس بریفنگ کے دوران گو جیاکُن نے کہا کہ کلس کے یہ بیانات دوسری جنگِ عظیم کی تاریخ کے لیے توہین آمیز اور یورپی یونین کے اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ یورپی یونین عہدیدار کے بیانات نظریاتی تعصب سے بھرپور ہیں، تاریخی شعور سے عاری ہیں اور کھلے عام رقابت اور محاذ آرائی کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ انتہائی غلط اور غیر ذمہ دارانہ مؤقف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ غیر یقینی اور ہلچل سے بھرے بین الاقوامی حالات میں دنیا کو پہلے سے کہیں زیادہ یکجہتی اور تعاون کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فوجی پریڈ: چین نے غیرمعمولی صلاحیتوں سے آراستہ جنگی ڈرونز متعارف کرا دیے
ان کے مطابق بعض یورپی رہنما سرد جنگ کی ذہنیت اور سخت نظریاتی تعصب کے ساتھ جان بوجھ کر تقسیم اور تصادم کو ہوا دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تیانجن اجلاس کے دوران صدر شی نے ایک نئے، زیادہ منصفانہ عالمی حکمرانی کے نظام کی تجویز پیش کی، جو باہمی احترام پر مبنی ہو اور مغربی بالادستی کی مخالفت کرتا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے اور چند ممالک کے وضع کردہ اصول دوسروں پر مسلط نہیں کیے جانے چاہییں۔
صدر پیوٹن نے اس تجویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت خاص طور پر اہم ہے جب کچھ ممالک اب بھی بین الاقوامی معاملات میں آمریت کی خواہش ترک نہیں کر پا رہے۔