جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو ایک اور خط، قوم کو 6 سوالوں کے جواب دینے کا مطالبہ

جمعہ 5 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک غیر معمولی خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کے اندرونی نظم و نسق اور شفافیت سے متعلق 6 اہم سوالات کے جواب عوامی سطح پر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس منصور علی شاہ کا سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کے نام ایک اور خط، سینیارٹی پر سوالات

یہ خط جمعرات کو تحریر کیا گیا اور جمعے کو منظرِ عام پر آیا۔ اس میں جسٹس شاہ نے اسے ’ایک ناگزیر ادارہ جاتی فریضہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ انہیں یہ قدم اٹھانے پر چیف جسٹس کی مسلسل خاموشی اور عدم دلچسپی نے مجبور کیا۔

ادارے کی شفافیت پر سوالات

جسٹس شاہ نے لکھا کہ ان کی جانب سے ان اہم معاملات پر بارہا تحریری طور پر چیف جسٹس کو خطوط بھیجے گئے مگر نہ کوئی تحریری اور نہ ہی زبانی جواب موصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سینیئر جج کو نظر انداز کرنا نہ صرف بدتہذیبی ہے بلکہ عدالت کے اجتماعی مزاج اور ادارہ جاتی روایات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ چونکہ پیر سے نیا عدالتی سال شروع ہو رہا ہے اور چیف جسٹس نے عدالتی کانفرنس کا اعلان بھی کیا ہے اس لیے یہی مناسب موقع ہے کہ ان سوالات کو کھلے عام ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے تاکہ عدلیہ، وکلاء برادری اور عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ اصلاحات کا عمل شفافیت اور آئینی اصولوں پر مبنی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے 6 سوالات

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی کو اس کے قانونی دائرہ کار کے مطابق اب تک کیوں فعال نہیں کیا گیا؟

سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم کو فل کورٹ میں بحث کے بغیر سرکولیشن کے ذریعے کیوں منظور کیا گیا؟

اختلافی آرا کی اشاعت کی پالیسی انفرادی آرا پر کیوں مبنی تھی، جبکہ یہ کام فل کورٹ میں ہونا چاہیے تھا؟

ججوں کی چھٹی سے متعلق عمومی ہدایت نامہ ایسا کیوں جاری کیا گیا جو عدالتی آزادی اور سنہ 1997 کے صدارتی آرڈر سے متصادم ہے؟

26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں ہوئیں؟

کیا چیف جسٹس عدلیہ میں آزادی کو فروغ دے رہے ہیں یا ’ایک نظم و ضبط پر مبنی عدالت‘ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ججوں کی خودمختاری متاثر ہو؟

خط کا مقصد ذاتی نہیں، ادارہ جاتی اصلاح

جسٹس شاہ نے وضاحت کی کہ ان کا خط کسی ذاتی شکایت پر مبنی نہیں بلکہ ادارہ جاتی ذمہ داری کے تحت لکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ سوالات ہیں جو عدالتی آزادی کے دل کو چھوتے ہیں اور اب اس عدالت کے جج ہی نہیں پوری قوم چیف جسٹس کی وضاحت کی منتظر ہے۔

’ون مین شو‘ کی واپسی؟

جسٹس شاہ نے خاص طور پر سنہ 2023 میں منظور شدہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کا حوالہ دیا جس کا مقصد بنچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کر کے اسے ایک مشترکہ فیصلہ سازی کا عمل بنانا تھا۔

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کا معاملہ، 2 سینیئر ججز نے چیف جسٹس کو نیا خط لکھ دیا

مگر ان کے مطابق چیف جسٹس کے اکتوبر 2024 میں منصب سنبھالنے کے بعد کمیٹی کی ایک بھی باقاعدہ میٹنگ نہیں ہوئی۔

بینچوں کی تشکیل اور کاز لسٹ بغیر مشاورت کے جاری کی جا رہی ہیں۔

سینیئر ججوں کو 2 رکنی بنچوں تک محدود کر دیا گیا جبکہ جونیئر جج 3 رکنی بینچوں پر تعینات کیے جا رہے ہیں۔

اہم قومی نوعیت کے مقدمات کو سینیئر ججوں کے سامنے نہیں لایا جا رہا۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدالتی ویب سائٹ پر موجود 5 کمیٹی میٹنگز کی تفصیلات محض چیف جسٹس کے سفرنامے کی گفتگو تھیں نہ کہ باضابطہ اجلاس۔

معاملے کے وسیع تر اثرات

جسٹس شاہ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو نظر انداز کر کے اور بنیادی معلومات کو چھپا کر آپ نے ایک قانونی ادارہ جاتی نظام کو محض ایک رسمی کارروائی میں بدل دیا ہے۔

مزید پڑھیں: آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعیناتی کا مکینزم ہونا چاہیئے، جسٹس منصور علی شاہ نے ایک اور خط لکھ دیا

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ججوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 57،455 تک پہنچ چکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاحات کا مقصد مقدمات کا بوجھ کم کرنا نہیں بلکہ ادارے کا توازن بدلنا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp