سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری سے لیکر عبوری ضمانت کے دوران ملک بھر میں خانہ جنگی کا ماحول رہا۔ عمران خان کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے کارکنان اور حمایتیوں کا چاروں صوبوں میں شدید رد عمل آیا۔ احتجاج کے دوران پولیس اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی جس میں جانی نقصان کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا مالی نقصان بھی ہوا۔
ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف 3 روز تک پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا تاہم بلوچستان میں پی ٹی آئی کے کارکنان اور حمایتی پہلے روز کے پر تشدد مظاہرے کے بعد سڑکوں پر نہ نکلے، کچھ سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی جڑیں بلوچستان میں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے کارکنان اور حمایتی سڑکوں پر دربارہ نہیں آئے جبکہ صوبائی قیادت کے اعلیٰ عہدے داران بھی منظر سے غائب رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی بلوچستان میں سیاست سے متعلق بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر و سئنیر صحافی عرفان سعید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان میں پہلے دن سے ہی 2 دھڑوں میں تقسیم رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے کارکنان اتنے متحرک نہیں جو ہمیں 9 مئی کو نظر بھی آیا۔ کوئٹہ میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران اہم قیادت بھی غائب رہی۔ ان معاملات کی وجہ سے پی ٹی آئی بلوچستان کے ورکرز کو قیادت کی جانب سے نظر انداز بھی کیا گیا۔
عرفان سعید نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان میں تقسیم ہمیشہ سے رہی ہے۔ ابتدائی دنوں میں سردار یار محمد رند کو پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی ان کے پارٹی سے اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے ان سے صوبائی صدارت واپس لے لی، اس طرح ان کے دیگر قائدین بھی بیان بازی کی حد تک محدود رہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 2 رہنما اس وقت بھی حکومت اور کابینہ کا حصہ ہیں لیکن کسی بھی معاملے پر یہ شخصیات کھل کر سامنے نہیں آئیں۔
عرفان سعید نے بتایا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے متحرک کرنے کے لیے اس کے لیڈر کو کوشش کرنا ہوتی ہے لیکن بلوچستان میں عمران خان کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ نہ یہاں پر جاری پارٹی گروپ بندی کو ختم کروانے میں کوئی دلچسپی دکھائی گئی اور نہ ہی صوبے کا کوئی دورہ کیا گیا۔
عرفان سعید نے مزید کہا کہ بلوچستان میں مرکز کی دیگر سیاسی جماعتوں کا کچھ علاقوں میں مضبوط ہولڈ ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف صوبے میں اپنا لوہا منوانے میں ناکام رہی ہے، پی ٹی آئی کی قیادت ہمیشہ سے عہدے کے پیچھے ہی ہے۔
بلوچستان کے سینئیر صحافی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے 2 قسم کی سیاست عوام میں مقبول رہی ہے جن میں قوم پرست سیاست اور مذہبی جماعتوں کی سیاست شامل ہیں۔ قوم پرست سیاست میں پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتیں اپنے جبکہ مذہبی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام ف اپنے اپنے علاقوں سے نشستیں حاصل کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ شخصیات کا بھی اپنا ووٹ بھی حلقوں میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ صرف کوئٹہ کی حد تک محدود ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں بھی مرکزی سیاسی جماعتوں، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے درمیان کڑا مقابلہ رہتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر کوئی میں مرکزی سطح کی جماعت یہاں پر اپنے پاؤں نہیں جما سکی۔ پاکستان تحریک انصاف صرف وسطی کوئٹہ میں مقبول ہیں اس کے علاؤہ صوبے کے دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی کی رسائی نہیں ہے۔
بلوچستان کے کالم نگار اور سینئر صحافی جلال نورزئی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے بڑے پیمانے پر صوبائی اور وفاقی سطح پر صوبے سے نشستیں حاصل کیں۔ 2018 کے انتخابات سے متعلق یہ تاثر موجود ہے کہ وہ الیکشن آزاد نہیں تھے جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے صوبے سے نشستیں حاصل کیں۔ تاہم صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاست دم توڑتی جا رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی صوبائی نشستیں بھی بلوچستان سے حاصل نہ کر سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بلوچستان میں مستقبل سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے وی نیوز کی جانب سے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پارٹی کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کا موقف
بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) زوال سے متعلق سوال کے جواب میں پارٹی کے صوبائی ترجمان نذیر اچکزئی نے وی نیوز کو بتایا کہ ماضی میں صوبہ مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے حصار میں رہا، مذہبی جماعتیں دین نے نام پر عوام سے ووٹ لیتی رہیں جبکہ قوم پرست جماعتیں قومیت کے نام لوگوں کا استحصال کرتی رہیں تاہم ماضی کی نسبت پی ٹی آئی جماعت نوجوان میں مقبول ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں شرح خواندگی زیادہ ہونے کی وجہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے تاہم بلوچستان میں اب بھی تعلیمی معیار، شعور کی کمی اور میڈیا کے غیر فعال ہونے سے بھی پی ٹی آئی کی صوبے میں مقبولیت کم ہے۔
نذیر اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کا قیام عمران خان کی مرہون منت ہے جیسے ہی خان صاحب گرفتار ہوئے صوبے بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ہماری کوشش جاری ہے کہ عوام کی خدمت کرکے عوام میں مقبولیت حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات شفاف ہوں تو صوبے میں نتائج کچھ اور ہوں گے ہمارے ہاں لوگ پسند نہ پسند کی بنایا پر لوگوں کو ایوان میں لایا جاتا ہے۔
نذیر اچکزئی نے کہا کہ صوبے کی سیاست کو موسمی پرندوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ موسمی پرندے وقت کے بھاؤ کے ساتھ اپنی وفاداریاں بدلتے ہیں۔ ایسے لوگ ایوان میں اپنے مفادات کے تحت قانون سازی کرتے ہیں۔ تاہم تعلیم کے حصول سے ہی عوام باشعور ہو سکتے ہیں