اسلام آباد کے علاقے شاہ اللہ دتہ اور سیکٹر سی 13 کے متاثرین کی درخواستوں پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے کے مجسٹریٹ پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کے کردار پر کڑی تنقید کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب نے پہلے ہی بیڑا غرق کردیا ہے، سیاسی انتقام سے ہٹ کر بھی نیب کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے کہنے پر فیصلے کرنا قانون کے منافی ہے، اس لیے افسران کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور کسی کے دباؤ میں نہ آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی فل کورٹ میٹنگ: اسٹیبلشمنٹ سروس رولز اور پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز منظور
ان کا کہنا تھا کہ فائدہ لیتے وقت تو کسی کو ڈر نہیں لگتا لیکن اپنا کام کرتے ہوئے سب کو ڈر لگتا ہے۔ غلطی کی سزا نہیں ہوتی، بدنیتی کی سزا ضرور ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سول رائٹس کے ساتھ ساتھ نیب اور ایف آئی اے کے دائرہ اختیار کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔
نیب قوانین میں ترامیم کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس کیانی نے کہا کہ ان ترامیم کے بعد زیادہ تر پرانے کیسز ختم ہو گئے، اسلام آباد میں 106 کیسز تھے جو اب صرف 3 سے 4 ہی رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈرنا چھوڑ دیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں، کسی کو نیب نہیں اٹھائے گا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا حکم
سی ڈی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر نے ایک ہی افسر کو برقرار رکھا۔
’حالانکہ بوجھ کم کرنے کے لیے ہرسیکٹر میں ایک ڈپٹی کمشنر ہونا چاہیے، جوعدالتی حکم نہیں مانتا کیا وہ 5 ڈی سی رکھ سکتا ہے۔‘
عدالت نے حکم دیا کہ سی ڈی اے حکام شاہ اللہ دتہ اور سیکٹر سی 13 کے متاثرین کی تفصیلی رپورٹ ایک ماہ میں جمع کرائیں۔