ناچنے والی مور مکڑیوں کے حیرت انگیز راز، قدرت کی صناعی پر سائنسدان حیران

جمعرات 11 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 

آسٹریلیوی ’ڈانسنگ اسپائڈرز‘ یعنی ناچنے والی مکڑیوں کی حیرت انگیز اقسام کا راز ان کے پوشیدہ ڈی این اے میں چھپا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دیوسائی میں گلوکارہ قرۃ العین بلوچ پر ریچھ کا حملہ کیوں ہوا، واقعات بڑھنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان مکڑیوں کو ’پیکاک اسپائیڈرز‘ (مور مکڑیاں) بھی کہا جاتا ہے اور ان کی چمکدار رنگت، منفرد حرکات اور نر مکڑیوں کا رقص کناں ہونا انہیں دیگر مکڑیوں سے بالکل مختلف بناتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر پیکاک اسپائیڈرز کی 100 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ زیادہ تر جانوروں کی صرف 5 یا 10 اقسام ہوتی ہیں۔

پوشیدہ ڈی این اے کیا ہے؟

ڈی این اے میں کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کسی خاص جسمانی خصوصیت (جیسے آنکھوں کا رنگ یا قد) کا تعین کرتے ہیں جنہیں جینز کہا جاتا ہے۔ مگر ڈی این اے کا بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جس کے بارے میں ابھی تک سائنس مکمل طور پر نہیں جانتی کہ وہ کیا کام کرتا ہے اسے ہی ’ڈارک ڈی این اے‘ یعنی پوشیدہ ڈی این اے کہا جاتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہی پوشیدہ ڈی این اے مکڑیوں کو نئی انواع میں ڈھلنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں ماحول کے بدلتے حالات کے مطابق تیزی سے ڈھلنے کے قابل بناتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کیا کر رہی ہے؟

سینگر انسٹیٹیوٹ کے محقق جونا واکر نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران آسٹریلیا میں پائی جانے والی تمام مور مکڑیوں کی اقسام کو جمع کیا اور ان کے رقص، رنگ، آواز اور حرکات کو تفصیل سے جانچا۔

بعد ازاں ان تمام مشاہدات کو ڈی این اے کے ساتھ ملا کر تجزیہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سے جین یا ڈی این اے حصے ان مختلف خصوصیات کے ذمہ دار ہیں۔

جونا واکـر نے کہا کہ ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ آخر یہ مکڑیاں اتنی متنوع کیسے بن گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم اس ایک انتہا پسندانہ کیس کو سمجھ لیں تو شاید قدرت میں موجود تمام تنوع کا راز بھی جان سکیں۔

خوف سے محبت تک کا سفر

دلچسپ بات یہ ہے کہ جونا واکر کو شروع میں مکڑیوں سے ڈر لگتا تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے پہلی بار ان کا رنگ برنگا رقص دیکھا ان کا خوف ختم ہو گیا اور دلچسپی میں بدل گیا۔

آگے کیا ہوگا؟

تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر سائنس دانوں کو امید ہے کہ جلد ہی وہ یہ جان سکیں گے کہ پیکاک اسپائیڈرز کی اس قدر اقسام کے پیچھے کن جینز اور ڈی این اے کے حصوں کا ہاتھ ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا کے آخری شمالی سفید گینڈے نایجن اور فاتُو کی کہانی

جونا واکر کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر جوانا مئیر کہتی ہیں کہ یہی تحقیق مستقبل میں جانوروں، پودوں اور فنگس سمیت تمام جانداروں کا جینیاتی خاکہ تیار کرنے کے عالمی منصوبے ’ارتھ بایوجینوم پروجیکٹ‘ کی بنیاد بھی بنے گی۔

اب تک 3 ہزار اقسام کا ڈی این اے کامیابی سے ڈی کوڈ کیا جا چکا ہے۔ اگلے سال 10 ہزار اقسام کا ہدف ہے جبکہ اگلے 10 برسوں میں دنیا کی تمام 18 لاکھ اقسام کا جینیاتی کوڈ پڑھنے کا منصوبہ ہے۔

مزید پڑھیں: کیا بار بار اعضا کی پیوندکاری سے انسان امر ہو سکتا ہے؟شی جن پنگ اور پیوٹن کےدرمیان غیر متوقع گفتگو

ڈاکٹر جوانا مئیر نے کہا کہ جب ہم تمام جانداروں کے ڈی این اے کو سمجھیں گے تو یہ نہ صرف قدرت کے کام کرنے کے اصولوں کو ظاہر کرے گا بلکہ ہمیں اپنے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع دے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

شہباز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات، ’اب پاکستان کو مچھلی کھانے کے بجائے پکڑنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے‘

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ایشیا کپ، 41 سال بعد پاک-بھارت فائنل ہونے کو تیار، ٹورنامنٹ فائنلز میں پاکستان کا پلڑا بھاری

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی