امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اتوار کو اسرائیل پہنچے، جہاں انہوں نے ہماس کے ساتھ جاری جنگ میں اسرائیل کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:قطر میں عرب-اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس آج، اسرائیلی جارحیت پر مشترکہ حکمتِ عملی تیار ہوگی
یہ دورہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد ہو رہا ہے جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور جسے عرب و اسلامی دنیا نے سخت مذمت کا نشانہ بنایا۔
ٹرمپ کی اسرائیل پر برہمی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس غیر معمولی حملے پر اسرائیل کو ڈانٹ پلائی، تاہم روبیو کے بقول اس سے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت متاثر نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کے اثرات پر بات کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ یہ صلح کی کوششوں پر براہِ راست اثر ڈال رہا ہے۔
اسرائیلی موقف: اہم رکاوٹ ختم
وزیر اعظم نیتن یاہو نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا جنگ کے خاتمے کی راہ میں موجود اہم رکاوٹ کو ہٹانا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر اسرائیل پر تنقید بڑھ رہی ہے۔
غزہ میں شدت پسند کارروائیاں
گزشتہ دنوں اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر قبضہ کرنے کی کوششیں تیز کی ہیں، شہریوں کو انخلا کا حکم دیا گیا جبکہ بلند و بالا عمارتیں تباہ کی گئیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق شہر اور اطراف میں تقریباً 10 لاکھ افراد قحط اور بنیادی سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں۔
عالمی برادری کی مذمت
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دو ریاستی حل کی بحالی کے حق میں ووٹ دیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
اس کے باوجود اسرائیل کو سب سے بڑی فوجی اور سیاسی حمایت بدستور امریکہ سے حاصل ہے۔
یرغمالیوں کا معاملہ
اسرائیلی عوامی حلقے اور متاثرہ خاندان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ ختم کی جائے۔
ابھی بھی 47 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 25 کی موت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے برائن کاٹلس کے مطابق روبیو کی آمد کے باوجود جنگ بندی کا امکان کم ہے، کیونکہ امریکی پالیسی میں تشویشناک حد تک سست روی ہے اور وہ دائیں بازو کے اسرائیلی مؤقف کے قریب دکھائی دیتی ہے۔