انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان سوریا کمار یادو اور ان کی ٹیم نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کرکے وسیع القلبی کی اس عظیم روایت کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت برصغیر کے کرکٹرز نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران بھی ہوش مندی اور انسان دوستی سے کنارہ نہیں کیا تھا۔ اس عمل کی سب سے روشن مثال ٹیسٹ کرکٹ میں انڈیا کے پہلے کپتان سی کے نائیڈو کی ہے جنہوں نے 47 کے فسادات میں ٹرین میں شرپسندوں سے فضل محمود کی جان بچائی تھی ۔ اپنے بلے سے بولرز کی خبر تو وہ اچھی طرح لیتے رہے تھے لیکن اب اس کے ذریعے انہوں نے انتہا پسندوں کو متنبہ کیا کہ وہ چلتے بنیں نہیں تو ان کی خیر نہیں۔ سی کے نائیڈو نے اس دن انسانی جان ہی نہیں بچائی پاکستان کرکٹ کا مستقبل بھی بچایا تھا۔ فضل محمود نے 1952 میں لکھنؤ میں انڈیا کے خلاف 12 وکٹیں لے کر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا اور 1954 میں وہ اوول کے ہیرو بن گئے تھے۔ سی کے نائیڈو کی مہربانی شاملِ حال نہ ہوتی تو پاکستان کرکٹ کے ابتدائی زمانے کی تاریخ اس قدر درخشاں نہ ہوتی۔
سی کے نائیڈو کی شخصیت کے بڑے پن کی ایک اور مثال تقسیم سے پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب سیاسی فضا مکدر تھی۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ اس مسموم ماحول میں نائیڈو کے مثبت کردار پر بات کرنے سے پہلے بمبئی میں ہونے والے پینٹنگولر ٹورنامنٹ کا تھوڑا تعارف ہو جائے جس میں ہندو، مسلم، پارسی، یوروپین اور دی ریسٹ کی ٹیمیں شریک ہوتی تھیں۔ ہندو اور مسلم ٹیم کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چئیرمین شہریار خان نے ان میچوں میں مسابقت کی شدت کا موازنہ ایشز سیریز سے کیا تھا۔ عام آدمی کی دلچسپی کا تذکرہ کرکٹ کی کتابوں میں عام ملتا ہے لیکن ہم آپ کو ممتاز ادیب مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘آبِ گم ‘ کی طرف لیے چلتے ہیں جس میں قیدی چچا اپنے بھتیجے سے جن چیزوں کی فرمائش کرتا ہے اس میں پینٹنگولر کے بارے میں کیا چیز شامل ہے وہ ذرا آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
’بمبئی میں پینٹنگولر شروع ہونے والا ہے، کسی ترکیب سے مجھے روزانہ اسکور معلوم ہو جائے تو واللہ! ہر روز روزِ عید ہو، ہر شب شبِ برات! خصوصاً وزیر علی کا اسکور دن کے دن معلوم ہو جائے تو کیا کہنا۔‘
ذوالفقار علی بھٹو بھی پینٹنگولر کے دیوانے تھے۔ ان کے دوست اور معروف کرکٹ کمنٹیٹر عمر قریشی نے لکھا ہے کہ اسکول کے زمانے میں وہ اور بھٹو پینٹنگولر میں مسلمان ٹیم کا کھیل دیکھنے کے لیے کلاس چھوڑ دیا کرتے تھے۔ عمر قریشی کے بقول ’مسلمانوں کی جیت پر ہم جشن مناتے اور شکست پر افسوس کیا کرتے تھے۔ اس وقت ہماری یہ آرزو تھی کہ ہم کرکٹ کے اعلیٰ درجے کے کھلاڑی بنیں۔‘
اس ٹورنامنٹ کی مقبولیت کا احوال آپ نے جان لیا سو اب سی کے نائیڈو کے بارے میں باتوں کا ٹوٹا سلسلہ دوبارہ بحال کرتے ہیں۔
1944 میں پینٹنگولر ٹورنامنٹ کے فائنل میں مسلم ٹیم کے کپتان مشتاق علی بلے بازی کے دوران زخمی ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے کھیل سے دور رہنا تجویز کیا۔ معروف تاریخ دان رام چندر گوہا نے اپنی کتاب ’اے کارنر آف اے فارن فیلڈ ‘ میں لکھا ہے کہ نائیڈو یہ میچ تو نہیں کھیل رہے تھے لیکن پھر بھی ان کی ہمدردیاں ہندو ٹیم کے ساتھ ہونی چاہیے تھیں لیکن انہوں نے مشتاق علی کو ٹیم کی خاطر زخمی حالت میں کھیلنے کے لیے قائل کیا۔ جیت کے لیے رنز بنانے کی دوڑ میں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ شامل ہو گئے۔ تیزی سے قیمتی 36 رنزبنا کر اپنا حصہ ڈالا۔ عجب بات ہے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والے میچ میں سی کے نائیڈو کی سوچ کس قدر غیر فرقہ وارانہ تھی۔ وہ حریف ٹیم کے کپتان کو ہلا شیری دے رہے تھے۔ اسے میدان میں کچھ کر دکھانے کے لیے اکسا رہے تھے۔
اچھائی ہمیشہ زندہ رہتی ہے، اس لیے نائیڈو کے حسنِ عمل کی یاد ہمیشہ مشتاق علی کے دل میں جاگزیں رہی۔ 1992 میں ایک صحافی کو انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ اسپورٹس مین شاندار انسانی اقدار کا مثالی نمونہ ہوتا ہے اس لیے پینٹنگولر کی طرز کے ٹورنامنٹ میں بھی ہماری سوچ کبھی فرقہ وارانہ نہیں ہوتی تھی۔ نائیڈو والے قصے کا حوالہ دینے کے بعد مشتاق علی نے گوہا کے لفظوں میں اپنی بات زور دار اور غیر مبہم انداز میں یہ کہہ کر ختم کی: ’ہم کرکٹرز سیکولر ازم کی تجسیم تھے۔‘ میچ سے پیوستہ وہ واقعہ جس سے سی کے نائیڈو کی شخصی عظمت ظاہر ہوتی ہے وہ آپ نے جان لیا ہے تو اب آپ کو سید مشتاق علی کی آپ بیتی ’کرکٹ ڈیلائٹ فل‘ کی طرف لیے چلتے ہیں جس میں درج ایک بات سے مصنف کے کردار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں سوریا کمار یادو ایسے کرکٹروں کے لیے بھی سبق پنہاں ہے جن کا خیال خام ہے کہ اسپورٹس مین سپرٹ سے اوپر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ چوتھے دن بولنگ کریز کی صورتحال اس قدر مخدوش ہوئی کہ وہاں ایک گڑھا پڑ گیا جسے بھرنے کے لیے ہندو ٹیم کے کپتان وجے مرچنٹ نے امپائروں سے درخواست کی جو انہوں نے مسترد کردی البتہ یہ ضرور کہا کہ اگر حریف کپتان رضامندی ظاہر کرے تو خلا پر کیا جا سکتا ہے۔ مشتاق علی نے اس کے لیے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا تو وہ کوئی رعایت دینے کو تیار نہ تھے۔ ان کا خیال تھا اس سے مخالف ٹیم کے باؤلروں کو فائدہ ہوگا۔
مشتاق علی اپنے ٹیم کی دلیل رد نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے اپنا کیس ایک اسپورٹس مین کی طرح پیش کیا اور زور دیا کہ ہمیں کھیل کی اصل روح کے مطابق کھیلنا چاہیے۔ مشتاق علی نے کہا کہ یقینی طور پر فتح ہی ہمارا ہدف ہے لیکن اگر میچ ہار جائیں گے تو ہمیں غلاموں کی طرح فروخت نہیں کر دیا جائے گا اور نہ ہی پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا جائے گا۔ مشتاق علی نے اسپورٹس مین شپ اور کرکٹ کی روح کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دینے کی اہمیت جتائی تو کھلاڑیوں نے اپنے کپتان کی بات مان لی۔ مرچنٹ اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے۔
مشتاق علی نے لکھا ہے کہ پینٹنگولر ٹورنامنٹ میں یہ ہندوؤں کی مضبوط ترین ٹیم تھی۔ مسلمانوں کی فتح کے ہیرو کے سی ابراہیم تھے جنہوں نے ناقابلِ شکست سنچری اسکور کی تھی۔
اب یہ حال ہے کہ ٹاس کے سمے اور جیت کے بعد ہاتھ نہ ملانے کی تاویلیں گھڑی جا رہی ہیں ادھر ہاری ہوئی ٹیم کے کپتان وجے مرچنٹ نے ڈریسنگ روم جا کر مشتاق علی کو گرم جوشی سے گلے لگا کر مبارک باد دی تھی اور سی کے نائیڈو نے ان سے کہا ‘میں نے تم سے کہا تھا نا؟ کھیلنے کا یہی انداز ہوتا ہے مشتاق’۔
وجے ہزارے نے 1981 میں لکھا تھا کہ ٹورنامنٹ فرقہ وارانہ خطوط پر منعقد ہوتا تھا لیکن ہم کو کبھی مذہبی منافرت کا تجربہ نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی تماشائیوں نے اس کا مظاہرہ کیا۔
ان حقائق کی وجہ سے وجے مرچنٹ نے بھی پینٹنگولر کے منافرت کی وجہ بننے کے الزام کی سختی سے تردید کی تھی اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فرقہ وارانہ احساس سیاست کی پیدوار ہے نہ کہ کھیل کی۔ ان کا کہنا تھا سچ تو یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی دوسرے پہلو کی بہ نسبت دونوں قوموں کو کرکٹ اور کمیونل سیریز(پینٹنگولر )زیادہ قریب لے کر آئی۔
مرچنٹ کی اس بات کی تصدیق 1947 کے بعد بھی تاریخ نے ذرا مختلف انداز میں بار بار کی اور کرکٹ پاکستان اور انڈیا کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنی۔ اس کا کریڈٹ یقینی طور پر دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں اور عوام کو جاتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے جس میں کسی کپتان نے بھی سوریا کمار یادو کی طرح سیاسی بھاشن دیا نہ کرکٹروں کے آپسی تعلقات اس پست سطح پر پہنچے کہ وہ ہاتھ ملانے سے بھی جاتے رہیں۔ انڈین کپتان کی سیاسی گفتگو آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے تو ہاتھ ملانے سے گریز حریف ٹیم اور کرکٹ کے کھیل کی توہین ہے۔ اس لیے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا کرکٹ کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں کہ
’گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگے میں‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔