جگ مگ، جگ مگ کرتی روشنی، پکڑنے کی جستجو، ہاتھ میں آجائے تو خوشی دیدنی۔
ہم ذکر کر رہے ہیں ماضی کے بچوں کے زندگی میں خوشی کے رنگ بکھیرنے والے جگنوؤں کی۔
پہلے پروین شاکر کا یہ خوبصورت شعر پڑھیے،
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
یہ دوسری بات ہے کہ آج کے بچے کیا جانیں کہ رات کے وقت جگنو بچوں کی زندگی کو کیسے روشن کرتے تھے، چھوٹے چھوٹے ٹم ٹم کرتے یہ جگنو کبھی ادھر تو پل بھر میں کبھی ادھر چلے جاتے، پھر نظر بھی آ جاتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے کچھ ایسے روٹھے کہ اب مان ہی نہیں رہے۔
جگنو مکھی نہیں بلکہ بھونروں کی ایک قسم ہے، انہیں چمکدار کیڑا بھی کہا جاتا ہے، شمالی امریکا، برطانیہ، برازیل، کیوبا اور یورپ اس کے خاص مسکن ہیں۔
یہ انٹارکٹیکا کے علاوہ تقریباً ہر براعظم پر پائے جاتے ہیں اور اس کی اہم وجوہات میں انٹارکٹیکا کا انتہائی سرد موسم اور خوراک کی کمی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں ان کی 2 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، صرف آسٹریلیا میں اس کی 20 اقسام ہیں۔ یہ عام طور گرم علاقوں، دلدلی جگہوں اور جنگلات میں پائے جاتے ہیں، شہر کے پارکوں یا پھر پودوں کے قریب بھی نظر آ جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جگنو آلودگی ناپنے والا قدرت کا پیمانہ ہیں، یعنی جب ماحول صاف ہو تو یہ زیادہ تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ننھے کیڑے ہمیں یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہمارا ماحول کتنا صاف ہے مگر یہ خود انسانوں کے کیے کا نشانہ بن گئے۔
دنیا بھر میں جگنوؤں کی تعداد میں کمی کی کئی وجوہات ہیں، اندھیرا جگنوؤں کو خوب بھاتا ہے، تیز روشنی ان کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ موبائل فون ٹاورز، وائی فائی اور دیگر وائرلیس سگنلز جگنوؤں کی تعداد میں کمی کا سبب ہیں، برقی روشنیاں دیکھنے میں آنکھوں کو خوب بھاتی ہیں مگر ان چھوٹے چھوٹے کیڑوں کی زندگی اور بقا میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
نر جگنو اپنی مادہ کو مختلف سگنلز بھیجتے ہیں، تیز روشنیوں کے باعث ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آلودگی بھی ان ننھے چمکتے کیڑوں کی زندگی مشکل بناتی ہے۔ مصنوعی روشنی کے علاوہ کیڑے مار ادویات کا استعمال بھی جگنوؤں کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ کیڑے مار دواؤں سے کینچوے ناپید ہوئے تو اس کے باعث جگنوؤں کی تعداد میں کمی ہوئی۔
جگنوؤں میں نر اور مادہ میں بھی فرق ہوتا ہے، کچھ اقسام میں مادہ کے پر نہیں ہوتے اور یہ رات کے وقت زمین پر رینگتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ نر جگنو عموماً اڑتے اور چمکتے ہیں، یہ پودوں کا رس یا شہد کھاتے ہیں جبکہ کچھ صرف پانی پر گزارا کرتے ہیں۔ بعض اقسام میں مادہ نر سے کہیں زیادہ بڑی بھی ہوتی ہے۔
جگنوؤں کی کئی اقسام کو شدید خطرات ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور برطانیہ کے وہ جگنو بھی شامل ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ایک ساتھ روشن ہوتے ہیں اور پھر ایک ساتھ ہی روشنی دینا بند کر دیتے ہیں۔ بلو گوسٹ نامی جگنو بھی خطرے سے دوچار ہیں اور اس کی بڑی وجہ انہیں دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ہیں۔ ملائیشیا میں پام آئل کی کاشت کے لیے مینگرووز کے درختوں کی کٹائی سے بھی جگنو خطرے میں ہیں ۔
جگنوؤں کی پہچان ان کی روشنی ہے، اسی سے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں مگر یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہر جگنو لازمی طور پر روشنی نہیں بکھیرتا۔
جگنو اپنی روشنی کا استعمال صرف ساتھی کو بلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی کرتے ہیں، کسی حملے کی صورت میں یہ کڑوے ذائقے والا خون کا قطرہ نکالتے ہیں، جسے “Reflex Bleeding” کہا جاتا ہے۔ اور حملہ آور مکڑی یا کوئی اور کیڑا اسے چکھنے کے بعد جگنو کو کھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ مادہ جگنو اپنی روشنی سے کچھ نر جگنوؤں کو بلا کر انہیں کھا بھی جاتی ہیں۔
جگنو روشنی کیسے پیدا کرتے ہیں، اسے بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے، جگنو کے جسم میں موجود ایک کیمیائی مادے اور آکسیجن کے ملاپ سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں حرارت پیدا نہیں ہوتی، اس لیے یہ روشنی ٹھنڈی ہوتی ہے، صرف زندہ جگنو نہیں، کبھی کبھی ان کے انڈے بھی چھونے پر روشنی چھوڑتے ہیں۔ جگنو پیلی، سبز، نارنجی اور نیلی روشنی بکھیرتے ہیں۔
دیگر کیڑوں کی طرح جگنو کی پیدائش کے بھی 4 مرحلے ہوتے ہیں، سب سے پہلے مادہ جگنو گھاس یا نم مٹی میں چھوٹے انڈے دیتی ہے، کچھ ہفتوں بعد انڈے سے چھوٹا سا کیڑا نکلتا ہے، جسے لاروہ کہتے ہیں، پھر یہ پیوپا اپنے گرد ایک خول بناتا ہے اور اسی میں نیا جسم بننے لگتا ہے۔
کچھ دن بعد اس خول سے روشنی والا بالغ جگنو نکل آتا ہے، جس کے پر ہوتے ہیں اور یہ اڑ بھی سکتا ہے ۔ ایک انڈے سے جگنو بننے کا عمل عموماً 2 سے 3 ماہ لیتا ہے اور کبھی کبھی تو اسے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے مگر بالغ جگنو کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی، اکثر اوقات تو صرف چند ہفتے روشنی بکھیرنے کے بعد ہی مر جاتے ہیں۔
شاعری میں بھی جگنوؤں کا ذکر ملتا ہے، شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی جگنو کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔
علامہ اقبال کی نظم جگنو کے چند اشعار
جگنو کي روشنی ہے کاشانہَ چمن ميں
يا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن ميں
آيا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
يا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن ميں
يا شب کی سلطنت ميں دن کا سفير آيا
غربت ميں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن ميں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے يا نماياں سورج کے پيرہن ميں
بچوں کے لیے علامہ اقبال کی نظم ہمدردی میں بھی ایک پیغام ہے۔
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
جگنو کے نام سے فلمیں اور ڈرامے بھی بنے، 1947 کی دلیپ کمار اور نور جہاں کی کلاسک فلم جگنو کے کیا کہنے۔ ہم ٹی وی کا ڈرامہ جگنو بھی دیکھنے والوں کی یادوں کو مہکاتا رہتا ہے۔ آپ نے علی ظفر کا برسوں پرانا گیت جگنوؤں سے بھر دے انچل بھی یقیناً سنا ہو گا۔
جگنو ہے تو ایک چھوٹا سا کیڑا، مگر یہ ہمیں ایک نہیں کئی سبق سکھاتا ہے، جیسے اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بے مقصد نہیں بنائی اور ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔