نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے قبل ایک اہم سفارتی پیشرفت سامنے آئی ہے، جہاں فرانس، اینڈورا، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا اور موناکو نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو نمائشی اقدام قرار دیدیا، اسرائیلی وزیراعظم بھی برہم
اس موقع پر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ فرانس فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرتا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے امکانات کو محفوظ رکھیں۔
سربراہی اجلاس اور عالمی رہنماؤں کی شرکت
یہ اعلان فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں آسٹریلیا، کینیڈا، پرتگال اور برطانیہ کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا، جنہوں نے ایک روز قبل ہی فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
میکرون نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن کے لیے دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے۔
عالمی ردعمل اور بیانات
ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ 2 ریاستی حل اس وقت ممکن نہیں جب ایک ریاست کے عوام نسل کشی کا شکار ہوں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اس موقع پر کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام ایک حق ہے، انعام نہیں، اور یہ کہ عالمی برادری کو اس دیرینہ مسئلے کے حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔
فلسطینی قیادت کا خیرمقدم
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ویڈیو پیغام میں ان ممالک کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اسی راستے پر چلنا چاہیے۔
انہوں نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا مطالبہ بھی دہرایا۔
اسرائیل اور امریکا کی مخالفت
اسرائیل اور امریکا نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اسرائیلی مندوب نے اس اجلاس کو ’سرکس‘ قرار دیا، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس اقدام کو ’حماس کے لیے انعام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔
امریکا نے اشارہ دیا کہ وہ سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو پاور استعمال کرکے فلسطین کی مکمل رکنیت کی راہ روک سکتا ہے۔
موجودہ عالمی صورت حال
اب تک اقوام متحدہ کے 193 میں سے 147 رکن ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔
اس طرح دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ ممالک فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم، غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں اور خطہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام محض علامتی نہیں بلکہ ایک عملی دباؤ ہے تاکہ جنگ کو روکا جا سکے اور امن کی نئی راہیں کھل سکیں۔