وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 19ویں اجلاس میں ایک پروونشل ایوی ایشن اسٹریٹجی اور 3 سالہ ایوی ایشن ڈیولپمنٹ پلان کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت نوجوانوں کو ایوی ایشن انڈسٹری کے لیے تربیت فراہم کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نیوگوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ تجارت اور رابطوں کو آسان بنانے میں مصروف عمل
ڈائریکٹر جنرل ایوی ایشن ونگ کیپٹن علی آزاد کے مطابق اس پروگرام کے تحت کوئٹہ میں فلائنگ اسکول قائم کیا جا رہا ہے جہاں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے نوجوان جدید جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام 3 مراحل میں مکمل ہوگا، پہلے مرحلے میں پائلٹ ٹریننگ ہوگی جس کے لیے کوئٹہ کے پرانے فلائنگ کلب کو جدید بنیادوں پر بحال کیا جائے گا اور نئے ماڈل کے سنگل انجن اور ملٹی انجن جہاز فراہم کیے جائیں گے۔
ڈی جی ایوی ایشن کے مطابق فلائنگ اسکول کے گریجویٹ پائلٹس 2 انجن والے جہاز اڑانے کے اہل ہوں گے جو اس وقت کسی اور فلائٹ اسکول میں ممکن نہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق دوسرے مرحلے میں ٹیکنیشنز اور ایرو ناٹیکل انجینیئرنگ کے ادارے قائم کیے جائیں گے جہاں نوجوان ایوی ایشن کے مختلف شعبوں میں ڈپلومہ اور ڈگری حاصل کر سکیں گے۔
تیسرے مرحلے میں بلوچستان کے طلبا کو بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ فراہم کی جائے گی تاکہ وہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمی مارکیٹ میں بھی روزگار حاصل کر سکیں۔
کیپٹن علی آزاد کے مطابق صوبائی حکومت کا ہدف یہ ہے کہ نوجوان صرف ڈاکٹر یا انجینیئر ہی نہ بنیں بلکہ ایوی ایشن کے ماہر بھی بنیں، ہم انہیں کم از کم 500 فلائٹ گھنٹوں کا عملی تجربہ دیں گے تاکہ وہ کمرشل ایئر لائنز کے لیے تیار ہوں۔
صوبائی حکام کے مطابق 5 نوجوانوں کو انٹرن شپ دی گئی ہے اور انہیں فلائٹ آورز مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ کچھ طلبا کو حکومت وظیفہ دے گی جبکہ کمرشل فلائنگ سیکھنے کے خواہشمند طلبا اپنی فیس ادا کر کے شامل ہو سکیں گے۔
بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ عمران زرکون نے وضاحت کی کہ یہ منصوبہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ڈالے گا، ایوی ایشن ڈویلپمنٹ پلان کارپوریٹ سیکٹر کے فنڈز سے چلایا جائے گا۔
مزید پڑھیے: بلوچستان: کوئٹہ اور تربت میں جدید گرین و پنک بسیں جلد سڑکوں پر آ جائیں گی
عمران زرکون نے کہا کہ حکومت کے پاس پہلے سے موجود 3 جہاز اس کلب میں شامل ہوں گے جن کے ذریعے نہ صرف تربیت دی جائے گی بلکہ ریونیو بھی پیدا ہوگا اور صوبے کو اب بیرونی پائلٹس پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اپنے ہنر مند افراد تیار کیے جائیں گے۔
ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے ایوی ایشن ونگ ابھی تشکیل کیا گیا ہے جس کے لیے نئی پالیسی اور ایس او پیز مرتب کی جا رہی ہیں جہاں تک بات رہی اس منصوبے کی تو بلوچستان حکومت اس حوالے سے اپنے انفرا اسٹرکچر کو مزید بہتر بنارہی ہے۔
اس منصوبے کے تحت پہلے ہی صوبائی حکومت کوئٹہ ایئرپورٹ کے رن وے کو بڑا کر چکی ہے جبکہ گوادر ایئر پورٹ بھی کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ کوئٹہ میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے جس کی پہلی کڑی گرین بس منصوبہ ہے جو ایئر پورٹ روڈ سے شہر کے وسط تک رواں دواں ہے۔
ماہرین کے مطابق اس منصوبے سے معیشت کو بھی فائدہ ہوگا یہ نہ صرف ہیومن ریسورس تیار کرے گا بلکہ مقامی نوجوانوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مواقع ملیں گے۔
ہر شعبے میں حکومت سرکاری نوکریاں فراہم نہیں کر سکتی البتہ ایوی ایشن کی صلاحیتوں سے ہمکنار ہو کر نوجوان عالمی کمپنیوں میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر روزگار کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔
اعلیٰ سرکاری اہلکار کے مطابق اس پروجیکٹ میں بلوچستان حکومت کی ایئر ایمبولنس سروس بھی شامل ہوگی جس کا کنٹریکٹ پہلے ہی سیسلہ کو دیا جا چکا ہے۔
ایوی ایشن ماہر طارق ابوالحسن نے منصوبے کو دلچسپ مگر چیلنجنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایوی ایشن انڈسٹری انتہائی مہارت اور مضبوط انفراسٹرکچر کی متقاضی ہے۔
ان کے مطابق دنیا میں کہیں بھی صوبائی سطح پر ایئر لائن کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ پاکستان کی ایوی ایشن مارکیٹ پہلے ہی دبئی، قطر اور سعودی ایئر لائنز کے زیر اثر ہے۔
طارق ابوالحسن نے کہا کہ پنجاب کی ایئر ایمبولنس سروس اور سندھ کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری میں شمولیت صرف سیاسی بیانات تک محدود رہی ہیں جب تک قومی پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی صوبائی سطح پر ایئر لائنز یا بڑے منصوبے کامیاب ہونا مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی میں مائینز اینڈ منرل ایکٹ دوبارہ پیش کیا جائے گا، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
انہوں نے گوادر ایئرپورٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی انفراسٹرکچر، سڑکوں، ریلوے اور امن و امان کے بغیر کوئی بھی پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر ایئرپورٹ مکمل ہونے کے باوجود خالی ہے کیونکہ مقامی لوگوں کو ترقی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔
طارق ابوالحسن نے کہا کہ اگر بلوچستان حکومت واقعی کامیابی چاہتی ہے تو مقامی نوجوانوں کو ایوی ایشن میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔