ماہرنگ بلوچ کی متنازع نامزدگی کا بھارتی پراپیگنڈا؟

جمعہ 26 ستمبر 2025
author image

احسن ابرار خالد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی نے پاکستان اور عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عام طور پر نوبل امن انعام انسانی حقوق، انصاف اور امن کے لیے نمایاں کردار ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے لیکن اس بار ایک ایسی شخصیت کی نامزدگی سامنے آئی ہے جس پر کالعدم تنظیموں اور علیحدگی پسند بیانیے کے ساتھ تعلقات کے الزامات ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام انسانی حقوق سے زیادہ ایک بین الاقوامی پروپیگنڈا منصوبہ ہے جس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اس کے اتحادی حلقوں کا اثرورسوخ دکھائی دیتا ہے۔

یہ سلسلہ فروری 2024 میں شروع ہوا جب ناروے کے سیاستدان یورگن واٹنے فریڈنس نوبل کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ مئی 2024 میں ماہرنگ ناروے گئیں اور وہاں PEN Norway کے پلیٹ فارم سے ان کے لیے لابنگ شروع ہوئی۔ مارچ 2025 میں جلاوطن صحافی کیا بلوچ نے اس نامزدگی کو منظر عام پر لایا۔ کیا بلوچ اسرائیل سے منسلک تھنک ٹینک MEMRI کے ساتھ وابستہ ہیں اور بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ چلاتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW کے بیانیے کو یورپ اور امریکا میں مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کی 2020 کی یو این ڈوزئیر میں بھی RAW اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے روابط بے نقاب کیے جا چکے ہیں، جس سے اس پورے عمل پر مزید سوال اٹھتے ہیں۔

یورگن فریڈنس کی جانب سے ماہرنگ بلوچ کی نامزدگی اس وقت مشکوک ہو گئی جب ناروے میں ایک پروگرام کے دوران ماہرنگ سے بلوچ لبریشن آرمی کے بارے میں سخت سوالات پوچھے گئے اور وہ جواب دینے سے گریز کرتی رہیں۔ اس موقع پر فریڈنس نے نہ صرف ان کی حمایت کی بلکہ سوالات سے توجہ ہٹانے کی بھی کوشش کی۔ اس رویے نے ناقدین کو یہ باور کرایا کہ یہ نامزدگی محض انسانی حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی لابنگ کا حصہ ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی ایک کالعدم دہشتگرد تنظیم ہے جس نے پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، خاص طور پر سی پیک منصوبوں پر۔ دوسری طرف بلوچ یوتھ کمیٹی بظاہر انسانی حقوق کی تنظیم کے طور پر سامنے آتی ہے لیکن حقیقت میں یہ بی ایل اے کے بیانیے کو نرم شکل میں پیش کرتی ہے۔ ’لاپتا افراد‘ کے نام پر کیے گئے BYC کے احتجاجات کئی بار دہشتگردوں کو کور فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوئے اور بعض اوقات ان افراد کے لیے مظاہرے کیے گئے جو بعد میں بی ایل اے کے حملوں میں خودکش بمبار کے طور پر سامنے آئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ BYC انسانی حقوق کی آڑ میں عسکریت پسندی کا چہرہ چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔

ماہرنگ بلوچ کے خاندانی پس منظر میں بھی تضادات نمایاں ہیں۔ ان کے والد غفار لانگو BLA کے ابتدائی رکن تھے جنہوں نے اپنی ڈائری میں سینکڑوں پنجابی شہریوں کے قتل کا اعتراف کیا۔ بعد میں وہ اپنی ہی تنظیم کے اندرونی تنازعے میں مارے گئے۔ دوسری طرف حیرت انگیز طور پر ماہرنگ بلوچ کو ریاستی کوٹے کے تحت صرف 58 نمبروں پر بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ملا، وظیفہ دیا گیا اور سرکاری ملازمت کے مواقع بھی فراہم کیے گئے۔ ریاستی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے باوجود انہوں نے بلوچ یوتھ کمیٹی قائم کی جو بظاہر انسانی حقوق کی تنظیم تھی لیکن دراصل بی ایل اے کے علیحدگی پسند ایجنڈے کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی۔

صحافی غریدہ فاروقی نے ایک انٹرویو میں ماہرنگ سے پوچھا کہ کیا وہ بلوچستان میں سرگرم دہشتگرد تنظیموں کی مذمت کریں گی تو ان کا جواب تھا: ’کس کی مذمت؟‘ بار بار وضاحت کے باوجود انہوں نے دہشتگردوں کے خلاف ایک لفظ تک نہ کہا اور گفتگو ختم کر دی۔ اس رویے نے یہ تاثر مزید گہرا کیا کہ وہ بی ایل اے اور اس جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کو بالواسطہ جواز فراہم کر رہی ہیں۔

یہ پہلی بار نہیں کہ نوبل انعام پر سیاسی اثرات کا الزام لگا ہو۔ ماضی میں بھی حقیقی انسانی حقوق کے علمبردار، جیسے عبدالستار ادھی، کو یہ اعزاز نہ ملا لیکن ایک متنازع شخصیت کو عالمی سطح پر نمایاں کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نوبل انعام بعض اوقات سیاسی دباؤ اور پروپیگنڈا کا شکار ہو سکتا ہے۔

ماہرنگ بلوچ کی نامزدگی میں اسرائیل اور بھارت کی دلچسپی بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ کیا بلوچ کے MEMRI سے روابط اور RAW کے معاون نیٹ ورکس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ صرف انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان کے خلاف علیحدگی پسند بیانیے کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا یہ واقعی انسانی حقوق کی وکالت ہے یا ایک علیحدگی پسند تنظیم کے بیانیے کو عالمی سطح پر جائز حیثیت دلانے کی کوشش؟ پاکستان کے تناظر میں یہ اقدام بی ایل اے اور بی وائی سی جیسے گروہوں کو عالمی پلیٹ فارم پر سیاسی تحفظ دینے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ اگر نوبل انعام جیسے معتبر اعزاز کو عسکریت پسندی کے بیانیے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ نہ صرف اس انعام کی ساکھ کو متاثر کرے گا بلکہ عالمی امن کے تصور پر بھی ایک گہرا سوالیہ نشان چھوڑے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الیکٹرانک اور نیو میڈیا میں خدمات سرانجام دینے والے ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں۔ اسپورٹس، انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ، ویڈیو اسٹوری ٹیلنگ، اور ڈیسک ایڈیٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سیاست، روحانیت اور اسٹیبلشمنٹ کا متنازع امتزاج،  عمران خان اور بشریٰ بی بی پر اکانومسٹ کی رپورٹ

برازیلی انفلوئنسر عمارت کی چھت سے گر کر ہلاک

لیڈی ریڈنگ اسپتال میں آتشزدگی، بروقت کارروائی سے صورتحال پر قابو پا لیا گیا

شاباش گرین شرٹس! محسن نقوی کی ون ڈے سیریز جیتنے پر قومی ٹیم کو مبارکباد، سری لنکا کا بھی شکریہ

بابر اعظم کا ایک اور سنگ میل، پاکستان کے جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے سینچریوں کا ریکارڈ برابر کردیا

ویڈیو

سپریم کورٹ ججز کے استعفے، پی ٹی آئی کے لیے بُری خبر آگئی

آئینی ترمیم نے ہوش اڑا دیے، 2 ججز نے استعفیٰ کیوں دیا؟ نصرت جاوید کے انکشافات

اسلام آباد کے صفا گولڈ مال میں مفت شوگر ٹیسٹ کی سہولت

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے