کہتے ہیں کہ ہار، جیت کھیل کا حصہ ہے اور شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں، مگر قومی ٹیم کے سننے یا سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے کیونکہ اب تو انہوں نے ہار، ہار کو بھی کھیل کا حصہ ہی سمجھ لیا ہے۔
گزشتہ روز ایشیا کپ میں جو مقابلہ ہوا اس میں بھارت نے ٹی20 کرکٹ میں پاکستان کے خلاف 9ویں مرتبہ ہدف کا تعاقب کیا، بلکہ کامیابی سے تعاقب کیا اور اس وقت بات 0-9 تک پہنچ چکی ہے اور اس صورتحال میں اگر بھارتی کپتان یہ کہیں کہ اب یہ کوئی برابری کا مقابلہ نہیں رہا تو اس میں غلط کیا ہے؟
ایک ہی ایونٹ میں 3 مقابلے ہوئے اور تینوں میں ہی ہمیں شکست کا مسخ شدہ چہرہ دیکھنا پڑا، یقین کریں یہ کام ہم ہی کرسکتے ہیں۔ کل کے میچ میں بھی باقی تمام میچوں کی طرح قومی ٹیم سے بے شمار غلطیاں ہوئیں، جیسے بیٹنگ کولیپس، کپتانی میں غلطیاں، سلو وکٹ ہونے کے باوجود صائم ایوب، محمد نواز اور خود کپتان سلمان علی آغا کے اوورز مکمل نہ ہونا شامل ہے، مگر آج ہم ان میں سے کسی بھی موضوع پر بات نہیں کریں گے بلکہ ہماری توجہ بڑے مجرم یعنی حارث رؤف پر رہے گی جنہوں نے میدان میں صرف جہاز گرانے کے اشارے ہی نہیں کیے بلکہ اپنی ہی ٹیم اور اس کے چاہنے والوں کے طوطے بھی اڑا دیے ہیں۔
147 رنز کے تعاقب میں اگر کوئی بولر 3.4 اوورز میں 50 رنز دے سکتا ہے تو وہ صرف حارث رؤف ہی ہوسکتا ہے۔ یہ لڑکا صرف خوش نصیب ہی نہیں کہ ان کے ’تعلقات‘ بہت اوپر تک ہیں بلکہ یہ ہوشیاری میں بھی اپنی مثال آپ ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ بغیر پرفارمنس کے ٹیم میں کیسے رہنا ہے۔
جب 2 اوورز میں 17 رنز درکار تھے اور فہیم اشرف کو بولنگ کے لیے بلایا گیا تو خیال تھا کہ شاید اسی اوور میں میچ ختم ہوجائے مگر جس شاندار انداز میں فہیم نے 7 رنز پر اوور ختم کیا اس نے ایک بار پھر امید دلوا دی کہ میچ اب بھی جیتا جاسکتا ہے، مگر بات پھر وہی کہ ہمیں حارث رؤف کا چہرہ ایک بار پھر نظر آگیا اور یوں چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
بھارت کے خلاف فائنل میں 50 رنز دیکر شکست کی جانب رخ موڑ دینا ان کا واحد کارنامہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں کئی مرتبہ یہ ہمیں دُکھ اور تکلیف دے چکے ہیں۔
2022 کے ورلڈ کپ میں جب ہم سب کو یہ لگ رہا تھا کہ اس بار تو پاکستان بھارت کو شکست دے دے گا، تب عین اسی موقعے پر 19ویں اوور میں حارث رؤف ’دی گریٹ‘ نے 15 رنز کا اوور کیا اور میچ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔
یہاں تو ہم نے اس لیے صبر کرلیا کہ چلو سامنے بھارتی ٹیم ہے جس کے خلاف اب ہم جیتنا ہی بھول گئے ہیں اور پھر رنز بنانے والے ویرات کوہلی ہیں، مگر اس غموں اور تکلیف پر نمک تو اس وقت چھڑکا گیا جب 2024 کے ورلڈ کپ میں امریکا کے خلاف میچ میں ہمیں بدترین اور تاریخی شکست ہوئی۔
2 اوورز میں امریکا کو 21 رنز درکار تھے اور محمد عامر نے شاندار 19واں اوور کروایا اور صرف 6 رنز دیے یعنی امریکا کو جیتنے کے لیے اب آخری اوور میں 15 رنز درکار تھے۔ ہم سے زیادہ پریشان وہ تھے کہ یہ کام کیسے ہوگا؟ مگر حارث رؤف کو دیکھ کر انہیں کچھ اطمینان ہوا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے کہ طیارہ کریش ماہر حارث رؤف سے آخری اوور میں یہ 15 رنز بھی نہ روکے جاسکے اور یوں میچ برابر ہوگیا مگر سپر اوور میں بھی ہمیں شکست ہی ہوئی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس میچ میں بھی پاکستان کے لیے حارث رؤف سب سے مہنگے بولر رہے تھے۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ حارث رؤف خوش نصیب ہیں کہ ان کے اوپر تک ’تعلقات‘ ہیں تو اس کی بھی وجہ ہے۔ 4 مارچ 2025 کو دورہ نیوزی لینڈ کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان ہوا تھا جس میں سلمان علی آغا کو ٹی20 ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس دورے میں ٹی20 اور ایک روزہ سیریز کھیلی جانی تھی مگر حارث رؤف کو ایک روزہ سیریز سے ڈراپ کردیا گیا تھا جس کے 2 دن بعد فاسٹ بولر کی پارلیمنٹ میں خواجہ آصف سے ملاقات ہوئی جس پر بہت باتیں ہوئیں۔ یہ عام ملاقات بھی ہوسکتی تھی مگر جس موقع پر یہ سب ہوا اس نے معاملے کو متنازعہ بنایا۔
پھر جب بھارت کے خلاف میچ میں حارث ’دی پائلٹ‘ نے جہاز گرانے کے اشارے کیے تو کچھ ہی دیر بعد خواجہ آصف صاحب نے حوصلہ افزا ٹوئٹ بھی کی اور فاسٹ بولر کو پیغام دیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’پتر، وکٹیں تو بعد میں بھی لیتے رہیں گے، ابھی تو جہاز ہی گرا‘۔ لیکن مجھے حارث رؤف کے لیے پریشانی ہورہی ہے کہ کیونکہ اب ان پر مشکل وقت آیا ہے، ہر طرف سے تنقید ہورہی ہے اور خواجہ صاحب اس مشکل وقت میں بھی حارث رؤف کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں یا پھر ان سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں یہ دیکھنا اہم رہے گا۔
باقی اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حارث رؤف بار بار رسوائی کا سبب بننے کے بعد اب ٹیم سے باہر ہوجائیں گے تو ایسے تمام لوگوں سے معذرت۔ ہاں ممکن ہے آنے والی چند سیریز میں انہیں آرام دیا جائے مگر ایک بار پھر یہ اڑتا ہوا جہاز ورلڈ کپ کی ٹیم میں لینڈ ہوگا اور ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دے گا، اور ایسا اس لیے ہوگا کہ وہ کسی نہ کسی کے وژن تو ہیں مگر سامنے آکری کوئی ’اون‘ کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔