افغان طالبان حکومت کو سوشل میڈیا پر تنقید نے فرسٹریٹ کر رکھا ہے۔ ستمبر میں بلخ ، قندھار ، ہلمند ، اروزگان اور نمروز صوبوں میں انٹرنیٹ کی بندش کا آغاز کیا گیا۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا پر غیٖر اخلاقی سرگرمیاں بتایا گیا تھا۔ یہ ابتدائی بندش ہائی اسپیڈ انٹر نیٹ کی بندش تک محدود تھی، موبائل فون کام کر رہے تھے اور سلو سپیڈ ڈیٹا بھی دستیاب تھا۔
ستمبر سے فائبر آپٹک کو بند کیا گیا ہے۔ جس سے انٹرنیٹ ٹریفک 60 فیصد گر گئی ہے۔ کنیکٹیوٹی گر کر 14 فیصد تک رہ گئی ہے۔ اک طرح سے کمیونیکیشن شٹ ڈاؤن کر دیا گیا ہے جو کب تک جاری رہے گا اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ اس کے نتیجے میں پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔ بینکنگ ٹرانزیکشن متاثر ہو گئی ہے، ریمیٹینس رک گئی ہے اور تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ افغانستان میں حوالہ بزنس جس پر ادائیگیوں کا زیادہ تر انحصار ہے وہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی
افغانستان کی 4 کروڑ آبادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ گیا ہے۔ خواتین جو آن لائین بزنس یا تعلیم حاصل کر رہی تھیں وہ سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ افغانستان میں جاری امدادی سرگرمیوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اس ایک اقدام سے افغانستان دنیا سے کٹ جانے کے علاوہ کئی دہائی پیچھے چلا گیا ہے۔
جرمنی کی وزارت داخلہ کا ایک وفد کابل کا دورہ کرنے والا ہے۔ یہ دورہ اس سلسلے کی کڑی ہے کہ جرمنی ان افغانوں کو واپس افغانستان بھجوانا چاہتا ہے جو جرائم میں ملوث ہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان حکومت سے یہ گارنٹی لی جانی ہے کہ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ پاکستان اور ایران بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو مسلسل واپس بھجوا رہے ہیں۔
ان مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنا ان کی دوبارہ آباد کاری افغان طالبان کی حکومت کے لیے کوئی معمولی چیلنج نہیں ہے۔ اس حکومت کو روس کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ہوا۔ یہ ادائیگیوں کے عالمی نظام سے باہر ہے ۔ افغانستان کے مالیاتی اثاثے امریکا نے منجمد کر رکھے ہیں۔ ایسے میں کئی ملین افغانوں کو واپس قبول کرنا ایک مشکل کام ہے۔
پاکستان اور ایران سے واپس جانے والے افغانستان سے کہیں بہتر سہولیات زندگی کے عادی ہیں۔ پاکستان میں رہ کر واپس جانے والے افغان سیاست، احتجاج کے قسم ہا قسم طریقوں سے واقف ہیں اور حکومت کو دباؤ میں لانا بھی جانتے ہیں۔ ایسے میں جب ان کو حقیقی مسائل کا سامنا ہو گا تو احتجاج فطری ہے اور اس کو ہینڈل کرنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہو گا۔
مزید پڑھیے: پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے
افغانستان سے جو میڈیا رپورٹس آ رہی ہیں وہ صورتحال کی سنگینی ظاہر کرتی ہیں۔ افغان انٹیلیجنس کے ذرائع سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے انٹیلجنس ڈپارٹمنٹ کی ایک اسیسمنٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سخت گیر انداز حکومت، لڑکیوں کی تعلیم اور کام پر پابندی کی وجہ سے احتجاج پھوٹ سکتا ہے۔
افغان انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر داخلہ سراج حقانی نے قندھار کے اجلاس میں انٹرنیٹ بندش کی شدید مخالفت کی ہے اور ان کی مخالفت بے نتیجہ رہی ہے۔ اہم افغان وزرا عوامی اجتماعات میں سخت گیر پالیسیوں کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ان میں ملا یعقوب، سراج حقانی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ جو لوگ اعلانیہ مخالفت نہیں کرتے وہ اہم میٹنگ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یہ اختلاف اب تک مؤثر ثابت نہیں ہوا۔
انٹرنیٹ کی اس بندش کا ایک اور اینگل بھی ہے، اگر یہ بندش جاری رہتی ہے تو اس کا افغانستان میں موجود مسلح تنظیموں کو بھی نقصان ہو گا۔ ان کا کمیونیکیشن نیٹ ورک بری طرح متاثر ہو گا۔ سوشل میڈیا پر ان کی پراپیگینڈا سرگرمیاں بھی کم ہو جائیں گی۔ یہ ایسے وقت میں ہو گا جب ایک طرف ان گروپوں کے خلاف پاکستانی سیکیورٹی فورسز آپریشن کر رہی ہیں اور دوسری جانب یہ مسلح گروپ آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔
افغانستان میں انٹرنیٹ کی بندش کی ٹائمنگ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اعلان سے بھی جا ملی ہے۔ ٹرمپ افغانستان سے بگرام بیس واپسی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک غیر سنجیدہ مطالبہ لگتا ہے۔ اس کے باوجود افغان طالبان نے اپنے حمایتی فائٹر، کمانڈر اور عہدیداروں کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹس مٹانے شروع کر رکھے ہیں۔ بائیو میٹرک سسٹم سے طالبان عہدیداروں کا ڈیٹا ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
افغانستان میں موجود شدت پسند مسلح گروپ افغان طالبان کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ انٹرنیٹ کی بندش ان کے ردعمل کو کنٹرول کرنے کی بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ یہ بندش اگر لمبی چلی تو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے لیے بھی ایک موقع فراہم کرے گی کہ وہ دہشتگردی کے روکنے کے لیے مؤثر کارروائیاں کرے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔