سعودی حکام نے سیاحت کے شعبے کے لیے نئے قواعد کی منظوری دے دی ہے، جن کا مقصد مقامی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی یعنی ایس پی اے کے مطابق ان قواعد کے تحت تمام لائسنس یافتہ اداروں کو اپنے ملازمین کا اندراج کرانا اور سعودائزیشن یعنی مقامی طور پر ہم آہنگی سے متعلق ضوابط پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں سیاحت کے شعبہ نے نئے ریکارڈ قائم کردیے
نئے قواعد کے تحت سیاحتی کمپنیاں ایسے عہدوں پر غیر ملکیوں یا بیرونِ مملکت اداروں سے خدمات حاصل نہیں کر سکیں گی جو سعودی شہریوں کے لیے مخصوص ہوں۔
تاہم آؤٹ سورسنگ کی ضرورت کی صورت میں صرف وہی فرم استعمال کی جا سکیں گی جنہیں وزارتِ سیاحت یا وزارتِ افرادی قوت و سماجی ترقی سے لائسنس حاصل ہو۔
دوسری جانب ان عہدوں پر صرف سعودی شہری ہی تعینات کیے جائیں گے۔
وزارتِ سیاحت نے تمام سیاحتی اور ہوٹلز کے اداروں کے لیے یہ بھی لازم قرار دیا ہے کہ اوقاتِ کار کے دوران سعودی ریسپشنسٹ موجود ہو تاکہ شہریوں کو نمایاں طور پر فرنٹ لائن کردار میں دکھایا جا سکے۔
وزارت نے وضاحت کی کہ نئی پالیسیوں کے تحت تمام معاشی سرگرمیوں میں لوکلائزیشن اور ملازمین کے اندراج کے تقاضے طے کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں نوجوانوں کا بول بالا، بزرگ آبادی صرف 2.8 فیصد
ان ضوابط کا اطلاق ان تمام اقتصادی سرگرمیوں پر ہوگا جنہیں قومی درجہ بندی برائے اقتصادی سرگرمیوں کے تحت وزارت نے لائسنس جاری کیے ہیں۔
قواعد کے مطابق سیاحتی اداروں کے تمام ملازمین کو کام شروع کرنے سے قبل وزارتِ افرادی قوت و سماجی ترقی کے ساتھ رجسٹر کرانا لازمی ہوگا۔
جبکہ ان کے معاہدے ’اجیر‘ پلیٹ فارم یا کسی منظور شدہ نظام کے ذریعے دستاویزی شکل میں محفوظ کیے جائیں گے، چاہے وہ مستقل، عارضی یا موسمی نوعیت کے معاہدے ہوں۔
ایک سے زائد برانچ رکھنے والی کمپنیوں کو ہر شاخ کے تحت عملے کا الگ اندراج کرانا ہوگا۔
وزارت نے مزید کہا کہ خلاف ورزیوں کی نگرانی وزارتِ افرادی قوت و سماجی ترقی کے تعاون سے کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: سیاحت 2030 تک سعودی عرب کی معیشت میں تیل کے برابر ہوجائے گی؟
یہ اقدامات وژن 2030 کے تحت کیے جا رہے ہیں جس کے تحت سیاحت کو سعودی عرب کی معیشت کا اہم محرک بنایا جا رہا ہے۔
وژن کا ہدف سال 2030 تک 15 کروڑ سیاحوں کو راغب کرنا ہے، جبکہ اس حکمتِ عملی میں سعودائزیشن کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے تاکہ شہریوں کے لیے پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔