پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ممالک کے درمیان ایک سفارتی رشتہ نہیں بلکہ خطے کی سیاست، سلامتی اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی قوت کا مظہر ہیں۔ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مزید مضبوط ہوا ہے۔
حال ہی میں سعودی صحافی عبد اللہ المدیفر نے اپنے معروف پروگرام (فی الصوره) میں سعودی عرب کے سینیئر رہنما شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ ترکی الفیصل کا انٹرویو کیا، جو اس تعلق کی گہرائی اور مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
عبد اللہ المدیفر سعودی عرب کے نمایاں صحافی ہیں، جو اپنے بے لاگ سوالات اور گہرے تجزیاتی انداز کے باعث سعودی میڈیا میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پروگرام (فی الصوره) محض ایک انٹرویو شو نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے سعودی عرب میں ریاستی مکالمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی پروگرام میں شہزادہ ترکی الفیصل جیسے رہنما کی گفتگو براہِ راست خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو کی معافیاں: اخلاقی اعتراف یا سیاسی مجبوری؟
شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی قومی سلامتی کے ایک اہم ستون رہے ہیں۔ وہ برسوں تک مملکت کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے اور عالمی سطح پر ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا پس منظر انہیں صرف ایک سابق عہدے دار نہیں بلکہ ایک دانشور اور عالمی تجزیہ کار بھی بناتا ہے، جن کی بصیرت خطے کے مستقبل پر روشنی ڈالتی ہے۔
انٹرویو میں جب پاکستان کا ذکر آیا تو شہزادہ ترکی الفیصل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ قدرتی قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کا دورہ کیا تھا، اور اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی موجود تھے۔ سعودی عرب نے اس دور میں پاکستان کی مالی اور عسکری مدد کی، مگر کبھی اس پر کوئی شرط عائد نہ کی۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے اس تعاون کو اپنی تحقیق اور دفاعی صلاحیت کو جلا بخشنے میں استعمال کیا ہو۔ یہ پہلو دونوں ملکوں کے درمیان بے لوث اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے ماضی کی ان یادوں کے ساتھ ساتھ عسکری تعاون کی تفصیلات بھی بتائیں کہ کس طرح پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے مختلف علاقوں، بالخصوص تبوک اور خمیس مشیط میں تعینات ہوئے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مادی وسائل فراہم کیے۔ یہ تعاون صرف فوجی سطح پر نہ تھا بلکہ بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر پروان چڑھا۔
پاکستان کے کردار کو شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک قدرتی حلیف کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے قریب رہا ہے، اور خطے کے توازنِ قوت میں اس کا کردار فیصلہ کن ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی طاقت ہے اور واحد اسلامی جوہری ملک بھی، اس لیے اس کا اتحادی بننا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب کی میڈیا ریگولیشن اتھارٹی نے نئے قواعد و ضوابط وضع کردیے
انٹرویو میں اسلامی اتحاد کا حوالہ بھی آیا، جو سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے اس امکان کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ اتحاد صرف دہشتگردی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر خطروں کے مقابلے میں بھی ایک اجتماعی قوت بنے گا۔ یہ سوچ ایک وسیع تر اسلامی نیٹو کی جھلک دیتی ہے۔
انٹرویو کا اہم ترین حصہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ تھا، جس میں نیٹو معاہدے کی پانچویں شق جیسے اصول کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض دوستانہ سطح سے بڑھا کر باقاعدہ دفاعی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو بھی خطے کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اجتماعی قوت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ اسی اجتماعی حکمتِ عملی کی ایک بڑی کڑی ہے۔
یوں عبد اللہ المدیفر کے پروگرام میں ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف ماضی کے سنہرے ابواب یاد دلاتی ہے بلکہ مستقبل کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ اب سفارت کاری کی رسمی حدوں سے نکل کر خطے کی سلامتی، امت کی اجتماعی طاقت اور توازنِ قوت کا ضامن بن چکا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔