جب کوئی چیز مر جاتی ہے تو اس میں ایک قدرتی گھڑی چلنا شروع ہو جاتی ہے ایک تابکار سگنل جو وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہوتا جاتا ہے اور یہی سگنل ہمیں بتا سکتا ہے کہ موت کب واقع ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ابتدا میں انسان کس خطے میں مقیم تھا، قدیم کھوپڑی نے نئے راز کھول دیے
بی بی سی کے مطابق یہ دریافت پہلی بار سنہ 1940 کی دہائی میں امریکی کیمیا دان ویلارڈ لِبی نے کی جنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر فطرت میں کاربن کا ایک تابکار روپ یعنی کاربن-14 موجود ہو تو یہ زندہ جانداروں میں شامل ہو جاتا ہے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو یہ آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس کی مقدار معلوم کرکے موت کا وقت اندازاً جانا جا سکتا ہے۔

تحقیق کی شروعات
لِبی کو یقین تھا کہ انسانی فضلے میں کاربن-14 کے شواہد موجود ہوں گے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بالٹیمور کے سیوریج سسٹم سے حاصل کردہ گیس کی جانچ کی اور آخرکار کاربن-14 دریافت کر لیا۔
مزید پڑھیے: ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
اس دریافت نے نہ صرف آثار قدیمہ بلکہ جرائم کی تحقیقات، جنگلی حیات کی اسمگلنگ، آرٹ کی جعل سازی اور یہاں تک کہ موسمیاتی تبدیلی کی تحقیق میں بھی انقلاب برپا کر دیا۔
ریڈیوکاربن ڈیٹنگ کیسے کام کرتی ہے؟
جب کاسمک ریز فضا میں نائٹروجن سے ٹکراتی ہیں، تو کاربن-14 پیدا ہوتا ہے۔
یہ کاربن-14 آکسیجن کے ساتھ مل کر تابکار کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتا ہے، جو پودے جذب کرتے ہیں۔
یہ پودے اور انہیں کھانے والے جانور (اور انسان) کاربن-14 کو جسم میں جمع کرتے رہتے ہیں۔
جیسے ہی جاندار مرتے ہیں کاربن-14 کی مقدار گھٹنے لگتی ہے کیونکہ نئی مقدار شامل نہیں ہوتی۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کا قدیم شاہی قلعہ اور بھٹکتی ’بدروحیں‘
اس کی نیم عمر تقریباً 5،730 سال ہے یعنی اتنے سال بعد اس کی آدھی مقدار باقی رہتی ہے۔
کونسی اہم گتھیاں سلجھیں؟
ریڈیوکاربن ڈیٹنگ نے کئی اہم حقائق آشکار کیے۔ Dead Sea Scrolls کی اصل عمر، قدیم مصری بادشاہ سسوسٹریس سوم کی کشتی،33 سال پرانی انسانی باقیات جو ایک زمانے میں صرف 2 ہزار سال پرانی سمجھی جاتی تھیں۔
غائب لڑکی لورا این اومیلی کی باقیات کی شناخت جنہیں دہائیوں بعد ڈی این اے اور کاربن ڈیٹنگ سے پہچانا گیا۔
جدید ٹیکنالوجی: زیادہ درست نتائج
آج کے ماہرین Accelerator Mass Spectrometry (AMS) کا استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک ملی گرام کے نمونے سے بھی نتیجہ دے سکتا ہے جب کہ لِبی کو کئی گرام درکار ہوتے تھے۔
آکسفورڈ کی ریچل ووڈ کہتی ہیں کہ وہ ہڈیوں، بال، بیج، کوئلہ اور یہاں تک کہ ’فوسلائزڈ چمگادڑ کی پیشاب‘ پر بھی ڈیٹنگ کرتی ہیں۔
جرائم اور تجارت میں استعمال
ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کیسز میں ثابت کیا گیا کہ ہاتھی کب مارے گئے قانوناً ممنوعہ وقت کے بعد یا پہلے؟
یہ بھی پڑھیے: انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
جعلی فن پارے جو سنہ 1800 کی دہائی کے بتائے گئے مگر کاربن ڈیٹنگ نے ان کا اصلی دور سنہ 1980 کی دہائی بتایا۔
موسمیاتی تبدیلی اور خطرات
کاربن-14 نے سائنسدانوں کو زمین کی ماضی کی آب و ہوا کو سمجھنے میں مدد دی جس سے ماڈلز تیار کیے گئے کہ مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے۔
مگر اب فوسل فیول (کوئلہ، تیل، گیس) جن میں کاربن-14 نہیں ہوتا زمین کی فضا میں شامل ہو کر اس قدرتی گھڑی کو مدھم کر رہے ہیں۔
امپیریل کالج لندن کی ہیتر گریون خبردار کرتی ہیں کہ اگر یہی روش جاری رہی تو آنے والے وقتوں میں نئے اور 2 ہزار سال پرانے نمونے میں فرق کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
ایک گھڑی جو مرنے کے بعد چلتی ہے
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سائنس کی وہ نایاب ایجاد ہے جو ماضی کے راز کھولتی ہے۔ یہ حال کی سچائی ظاہر کرتی ہے اور مستقبل کے لیے انتباہ دیتی ہے۔ مگر جیسے جیسے فوسل فیول کے اخراج بڑھ رہے ہیں، ویلارڈ لِبی کی یہ ’قدرتی گھڑی‘ بھی وقت کے ساتھ کمزور ہو رہی ہے۔