ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2022 کے دوران دنیا بھر میں 883 افراد کو سزائے موت کے قوانین کے تحت پھانسی دی گئی ہے۔ عالمی تنظیم کے مطابق گزشتہ برس پھانسی کی سزا پر عملدرآمد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس عالمی تنظیم کے مطابق یہ تعداد گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سب سے زیادہ پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد کی عکاس ہے۔
’گزشتہ سال 883 ان پھانسیوں کی مجموعی تعداد میں چین میں دی جانیوالی پھانسیاں شامل نہیں ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں تصور کی جاتی ہے۔‘
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کی 90فیصد سزائے موت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کےصرف 3ممالک میں دی گئی ہیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل این یز کیلا مارڈ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک نے2022میں پھانسی کی سزاؤں میں اضافہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران نے عوامی بغاوت کو ختم کرنے کی مایوس کن کوشش میں کچھ شہریوں کو اپنے احتجاج کا حق استعمال کرنے پر پھانسی دی۔‘
گزشتہ سال مجموعی طور پر 20ممالک نے سزائے موت کے قانون کے تحت سنائی گئی سزاؤں پر عملدرآمد کیا۔ میانمار کی فوجی حکومت نے گزشتہ جولائی میں اپنے 4 سیاسی مخالفین کو 1980کی دہائی کے بعد پہلی پھانسی دے کر دنیا کو چونکا دیا تھا۔
ایمنیسٹی کے مطابق گزشتہ سال دی جانے والی تمام پھانسیوں میں سے 40فیصد منشیات سے متعلق جرائم میں دی گئی ہیں۔ ایران میں 255، اور سنگا پور میں 11 پھانسیاں دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین اور ویتنام میں بھی منشیات سے متعلق ممکنہ طور پر پھانسی دی گئی جہاں سزائے موت پر عملدرآمد ایک ریاستی راز ہے۔
عالمی انسانی حقوق کے تسلیم کردہ قانون کے مطابق سزائے موت برقرار رکھنے والے ممالک میں سزائے موت کو صرف سنگین ترین جرائم کے لیے استعمال کرنا چاہیے جن میں جان بوجھ کر قتل کرنا شامل ہے۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل کی سیکریٹری جنرل این یز کیلامارڈ کے مطابق حکومتیں اور اقوام متحدہ انسانی حقوق کی ان صریح خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں پر دباؤ بڑھائیں اور بین الاقوامی تحفظات کا ازالہ کریں۔
دنیا کے 6ممالک قازقستان، پاپوا نیو گنی، سیرا لیون، وسطیٰ افریقی جمہوریہ، استوائی گنی اور زیمبیا نےسزائے موت کو مکمل یا جزوی طور پر ختم کر دیا ہے جب کہ ملائیشیا نے بھی لازمی سزائے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
این یز کالمارڈ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ چین، شمالی کوریا اور ویت نام جیسے ممالک کو فوری طور پر وقت کا ساتھ دیتے ہوئے انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف پر عمل در آمد کرنا چاہیے۔