تاریخ کے صفحات پر بعض نام اپنے مناصب سے نہیں بلکہ اپنے افکار سے زندہ رہتے ہیں۔ سفارت کار بہت آتے ہیں، مگر وہی امر ہوتے ہیں جو تعلقات کو مفاہمت کے دستخطوں سے آگے، فکر اور علم کے دائرے میں لے جائیں۔
سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی بن سعید آل عواض عسیری انہی نادر شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے سفارت کو قلم کی سطوت عطا کی، اور دو برادر ممالک کے رشتے کو ایسی علمی جہت بخشی جس نے اسے محض تزویراتی نہیں بلکہ تہذیبی اور فکری وحدت میں بدل دیا۔
ڈاکٹر عسیری کی عربی تصنیف ’سعودی عرب اور پاکستان: ایک متغیر دنیا میں راسخ ودیرپا روابط‘ جو رصانہ انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوئی اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ دو سو چھپن صفحات پر پھیلی یہ تحقیق چار ابواب پر مشتمل ہے، جو پاک سعودی تعلقات کی تاریخ، سیاست، معیشت اور مستقبل کے امکانات کو یکجا کرتی ہے۔ کتاب اپنے پانچ ابواب میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے تاریخی، تزویراتی اور اقتصادی سفر کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔
پہلا باب دونوں خطوں، جزیرۂ عرب اور برِصغیر، کے قدیم تجارتی و ثقافتی روابط کا جائزہ لیتا ہے اور اٹھارہویں صدی کی اصلاحی تحریکوں کے اثرات کو واضح کرتا ہے جنہوں نے دونوں جدید ریاستوں کی فکری بنیادیں استوار کیں۔ یہ باب 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد تعلقات کے تدریجی ارتقا پر بھی روشنی ڈالتا ہے، جب ابتدائی غلط فہمیوں کے بعد قربت اور تعاون کی راہ ہموار ہوئی۔
دوسرا باب 1970 اور 1980 کی دہائیوں پر مرکوز ہے، جن میں پاک سعودی تعلقات نے معاشی اور دفاعی شراکت کی نئی جہتیں اختیار کیں۔ اس میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے رہنماؤں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے، جنہوں نے اس دوستی کو مضبوط کیا۔ باب میں افغان جنگ اور سوویت یونین کے خلاف اسلامی یکجہتی کے پس منظر میں دونوں ممالک کے اشتراکِ عمل کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
تیسرا باب 1990 کی دہائی کے بعد کی اسٹریٹجک ترجیحات پر روشنی ڈالتا ہے، جس میں دہشتگردی، القاعدہ کے عروج، اور ایرانی اثر و رسوخ جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے اشتراکِ عمل کا تجزیہ شامل ہے۔ اس میں سعودی عرب کے سیاسی و معاشی تعاون اور ’وژن 2030‘ کے تحت ابھرتے ہوے نئے علاقائی توازن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
چوتھا باب اقتصادی اور انسانی تعاون پر مبنی ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دیے گئے مالی وامدادی تعاون کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان کے بعد سامنے آنے والے سرمایہ کاری کے نئے امکانات، پاکستانی ماہر افرادی قوت کے کردار، اور دوطرفہ تجارت کے فروغ پر گفتگو کی گئی ہے۔
اختتامی باب مستقبل کے امکانات پر مرکوز ہے، جہاں مصنف دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم رکھنے کے لیے سیاسی، اقتصادی، عسکری اور ثقافتی سطح پر ایک جامع روڈمیپ پیش کرتا ہے، تاکہ بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال میں یہ شراکت مزید مضبوط اور مؤثر بن سکے۔
کتاب کے دیباچے میں، جو پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے تحریر کیا ہے، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ منفرد تعلق صرف باہمی مفادات پر مبنی نہیں بلکہ تاریخی، دینی اور ثقافتی رشتوں کی گہری جڑوں پر استوار ہے۔
نواز شریف نے پاکستان کو درپیش بحرانوں کے دوران، بالخصوص ایٹمی تجربات کے بعد، سعودی عرب کے کردار کی تعریف کی ہے، جو اس اسٹریٹجک شراکت کی گہرائی اور پائیداری کو واضح کرتا ہے۔
ڈاکٹر عسیری سے قبل بھی کچھ سعودی سفیروں نے پاکستان میں فکری اور ادبی سطح پر نمایاں خدمات انجام دیں، لیکن عسیری نے ان بکھرے ہوے رنگوں کو تحقیق کی ایک مکمل تصویر میں سمو دیا۔ عبدالحمید الخطیب، جو 1948 میں پاکستان میں پہلے سعودی سفیر مقرر ہوئے، شاعر اور ادیب تھے۔
انہوں نے یومِ اقبال کی تقریبات میں خطابات کے ذریعے شاعرِ اسلام کے فلسفۂ خودی کو عربی دنیا تک پہنچایا۔ ان کے بعد ریاض بن فؤاد الخطیب نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور اپنے خطبات میں کہا کہ اقبال نے امتِ مسلمہ کے فکری ضمیر کو جگایا۔ ان دونوں سفیروں کی کاوشوں نے سعودی سفارت کو ایک علمی روایت دی، جسے عسیری نے نئی فکری گہرائی عطا کی۔
اگر عبدالحمید الخطیب نے چراغ جلایا اور ریاض الخطیب نے اس کی روشنی پھیلائی، تو علی عواض عسیری نے اس چراغ کو تحقیق کے مینار پر نصب کر دیا۔ عسیری کا یہ کارنامہ محض علمی نہیں، سفارتی معنویت کا بھی حامل ہے۔ آج جب دنیا Knowledge Diplomacy کے تصور کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں تعلقات کا استحکام تھنک ٹینکس، جامعات اور علمی اداروں کے ذریعے ہوتا ہے، وہاں یہ کتاب سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فکری مکالمے کا سنگِ بنیاد بن سکتی ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ تعلقات کی پائیداری اعلانات سے نہیں، علمی اعتماد سے جنم لیتی ہے۔
یہ حقیقت اب مسلم ہے کہ پاک سعودی تعلقات کا سب سے مضبوط حوالہ صرف حج و عمرہ یا تیل و تجارت نہیں، بلکہ وہ فکری رشتہ ہے جو اقبال کے اشعار سے لے کر عسیری کے صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ رشتہ کسی سیاسی موسم کا محتاج نہیں؛ یہ عقیدت، اعتماد اور علم کی بنیاد پر قائم ہے۔
ڈاکٹر عسیری نے اپنی تصنیف کے ذریعے ہمیں یاد دلایا کہ تعلقات صرف سرکاری بیانات سے نہیں بلکہ باہمی فہم و احساس سے زندہ رہتے ہیں، اور جب یہ فہم قلم کے ذریعے ظاہر ہو تو وہ دوستی نہیں، تاریخ بن جاتی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے سفیروں نے پاکستان میں جو فکری چراغ جلایا، عسیری نے اسے تحقیق کے نور میں بدل دیا۔ ان کی کتاب اس بات کی علامت ہے کہ دوستی اگر علم سے گزر کر دل میں اترے تو وہ محض پالیسی نہیں، ایک وراثت بن جاتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔