اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کا مقصد کئی ماہ سے جاری لڑائی کے خاتمے اور علاقے میں سنگین انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔
یہ معاہدہ، جس پر جمعرات کو باضابطہ طور پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے، میں یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں اضافے کی شقیں شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر میں مذاکرات کے بعد اپنے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت اس پیشرفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
مزید پڑھیں: مذاکرات میں پیش رفت، حماس اور اسرائیل کے مابین قیدیوں و یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
ذرائع کے مطابق، معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں حماس 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل قریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ تبادلہ سمجھوتے پر عمل درآمد کے 72 گھنٹوں کے اندر متوقع ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج غزہ کے اندر ایک متفقہ لائن تک پیچھے ہٹیں گی، جبکہ مصر اور قطر کی نگرانی میں انسانی امداد کی ترسیل کو بڑھایا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق، اگر کسی اسرائیلی قیدی کی لاش واپس کی جاتی ہے تو اس کے بدلے میں اسرائیل 15 فلسطینی شہریوں کی باقیات واپس کرے گا۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے 6 اہم مطالبات سامنے آ گئے
حماس نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ اس نے اسرائیل کو رہائی کے لیے فلسطینی قیدیوں کی فہرست فراہم کر دی ہے اور اب وہ ناموں کی حتمی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔
بیان کے مطابق، اس معاہدے میں غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا اور یرغمالیوں و قیدیوں کے تبادلے کے مراحل شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے جو فہرست دی گئی ہے، اس میں معروف فلسطینی رہنما مروان البرغوثی (فتح تحریک) اور احمد سعدات (پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے سربراہ) کے نام بھی شامل ہیں، جو طویل قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کو غزہ امن معاہدے پر امید، ’اہم معاملات‘ پر حماس کی رضامندی کا دعویٰ
حماس نے اپنے بیان میں قطر، مصر، ترکی اور امریکا کی ثالثی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
حماس کا کہنا تھا کہ ہم اپنے عوام کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے صبر، عزم اور ہمت سے اس مشکل وقت کا مقابلہ کیا۔ ہماری جدوجہد آزادی، خود مختاری اور قومی حقوق کے حصول تک جاری رہے گی۔
اگر اس معاہدے پر کامیابی سے عمل درآمد ہو گیا تو یہ غزہ میں طویل المدتی جنگ بندی اور ممکنہ سیاسی مذاکرات کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔