ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی پہلی کامیابی کی کہانی

اتوار 12 اکتوبر 2025
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کرکٹ میں کسی ملک کے خلاف ٹیسٹ میچ میں پہلی بار کامیابی حاصل کرنا ایک تاریخی واقعہ ہوتا ہے، یہ معرکہ اس صورت میں زیادہ باوقعت ہو جاتا ہے اگر مقابل ٹیم کو اس کے ہوم گراؤنڈ میں چت کیا جائے۔

پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی آمد کے ساتھ ہی یہ سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ سنہ 1952 میں لکھنؤ میں اپنی تاریخ کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم نے انڈیا کو زیر کر لیا تھا جبکہ انڈیا کو پاکستان میں ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے سنہ 2004 تک انتظار کرنا پڑا۔

انگلینڈ کے خلاف پاکستان نے سنہ 1954 میں پہلی ٹیسٹ سیریز میں اوول ٹیسٹ جیت کر دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا تھا۔ انڈیا نے انگلینڈ میں اپنا پہلا ٹیسٹ سنہ 1932 میں کھیلا لیکن سنہ 1971 میں کہیں جا کر اسے وہاں ٹیسٹ میں پہلی کامیابی نصیب ہوئی۔

انڈیا کے ہاتھوں پاکستان کرکٹ ٹیم کی مسلسل شکستوں کے بعد اس طرح کی ماضی پرستی جمعیتِ خاطر کے لیے ہے جس کی ایک مثال گذشتہ دنوں معروف کرکٹ رائٹر سعد شفقت کے انگریزی کالم میں بھی پڑھنے کو میسر آئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ تینوں طرز کی کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان نے مجموعی طور پر 88 اور انڈیا نے 79 میچ جیتے ہیں۔ اس طرح کے اعدادو شمار ’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘ کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے اب ہم اصل مدعا کی طرف آ جاتے ہیں جس کے مطابق ہم نے آپ کو جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی کامیابی کا قصہ سنانا ہے۔

یہ سنہ 1998 کی بات ہے جب عامر سہیل کی کپتانی میں پاکستان نے ڈربن ٹیسٹ جیتا تھا۔ لیگ اسپنر مشتاق احمد نے 9 وکٹیں لے کر جیت میں مرکزی کردار ادا کیا اور مین آف دی میچ ٹھہرے تھے۔ شعیب اختر نے عمدہ کارکردگی سے شائقینِ کرکٹ اور مبصرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور ٹیسٹ میں پہلی دفعہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

شعیب اختر نے اپنی سوانح ’کنٹروورشلی یورز‘ میں لکھا ہے کہ سب نے ان کے اسپیل کو میچ وننگ قرار دیا اور اخبارات نے ان کو جیت کی وجہ قرار دیا۔

ان کا یہ کہنا محل نظر ہے۔ جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز میں انہوں نے بے شک عمدہ بولنگ کی لیکن جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے 255 رنز کا ہدف ملا تو اس تک پہنچنے میں مشتاق احمد اور وقار یونس رکاوٹ بنے تھے، جنہوں نے بالترتیب 6 اور 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ایک وکٹ فضل اکبر کے حصے میں بھی آئی تھی۔

وزڈن نے اپنی رپورٹ میں مشتاق احمد کو 9 کھلاڑی آؤٹ کرنے کی وجہ سے میچ ونر قرار دیا ہے لیکن شعیب اخترنے اس ٹیسٹ میں مشتاق احمد اور کسی دوسرے کھلاڑی کی کارکردگی کا ذکر نہیں کیا۔ اپنے قریبی دوست اظہر محمود کا اہم کردار بھی وہ فراموش کر گئے ہیں جنہوں نے کٹھن وقت میں سینچری بنائی تھی، جس کے بیان کی طرف آنے سے پہلے ذرا ان کی جنوبی افریقہ کے خلاف اس سے پہلے کی دو سینچریوں کا تذکرہ ہو جائے۔

اظہر محمود نے سنہ 1997 میں راولپنڈی میں اپنے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 128 اور دوسری میں 50 رنز بنائے۔ دونوں اننگز میں حریف ٹیم کے بولر انہیں آؤٹ کرنے میں ناکام رہے۔ پہلی اننگز میں 10 ویں وکٹ کی شراکت میں مشتاق احمد کے ساتھ 151 رنز جوڑ کر عالمی ریکارڈ برابر کیا۔ مین آف دی میچ کا اعزاز انہی کے حصے میں آیا۔ اس کے بعد سنہ 1998 میں اظہر محمود نے جوہانسبرگ ٹیسٹ میں 136 رنز بنائے اور وہ جنوبی افریقہ کے پیٹ سیمکوکس کے ساتھ مشترکہ طور پر مین آف دی میچ ٹھہرائے گئے۔ اظہر نے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی دو سینچریاں جن ٹیسٹ میچوں میں بنائی تھیں، وہ بے نتیجہ رہے لیکن ڈربن میں پاکستان نے 29 رنز سے میچ جیت لیا تھا۔ اظہر محمود پہلی اننگز میں بھنور میں پھنسی ٹیم کو محفوظ مقام تک لے گئے تھے۔ مخالف کیمپ میں عظیم فاسٹ بولر ایلن ڈونلڈ بھی تھے اور مایہ ناز بولر شان پولاک بھی لیکن انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پاکستان کے 89 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے تھے لیکن اظہر محمود کے 132 رنز کی بدولت ٹیم 259 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ شعیب اختر کے لیے ڈھال بن گئے۔ انہیں بولروں کی زد میں آنے سے بچائے رکھا۔ شعیب اختر کے ساتھ نویں وکٹ کی شراکت میں 80 رنز بٹورے جن میں شعیب اختر کا حصہ فقط 6 رنز تھا۔ 80 فیصد گیندوں کا سامنا اظہر نے خود کیا۔

سینچری کے لیے دوسرے 50 رنز انہوں نے 42 منٹ میں بنا ڈالے۔ پاکستان کے مجموعی اسکور میں آخری 106 رنز کے اضافے میں اظہر محمود کا حصہ 96 رنز تھا۔ اس سے آپ ان کی اننگز کے اعلیٰ معیار کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اظہر محمود کا یہ آٹھواں ٹیسٹ میچ تھا، اس کے بعد 13 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی لیکن نصف سنیچری بنانے سے بھی قاصر رہے اور ان کا سب سے زیادہ اسکور 41 رہا۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ بھی جنوبی افریقہ کے خلاف ہی تھا۔

ون ڈے کرکٹ میں سنہ 1997 میں جنوبی افریقہ کے خلاف اظہر محمود نے لاہور میں 137.20 کے اسٹرائیک ریٹ سے 43 گیندوں پر ناقابلِ شکست 59 رنز بنائے تھے، یہ ون ڈے میں ان کی پہلی نصف سینچری تھی۔

اظہر محمود کی جنوبی افریقہ کے خلاف شاندار کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے بعد ہمیں ڈربن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں سعید انور کی سینچری کا تذکرہ کرنا ہے جس کے دوران انہوں نے عامر سہیل کے ساتھ 101 رنز کا اوپننگ اسٹینڈ دیا تھا۔ یہ اس لیے بہت اہم بات تھی کہ کرکٹ میں واپسی کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف 45 ویں ٹیسٹ میچ میں پہلی بار کسی ٹیم کے اوپنر 100 رنز جوڑنے میں کامیاب ہو سکے تھے، اس سے آپ ان کی بولنگ کی قوت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

سعید انور کو ون ڈے کرکٹ میں اپنے جارح مزاج کی وجہ سے رجحان ساز بلے باز کہا جاتا ہے۔ وہ کھلاڑی جو اپنے وقت سے آگے ہو۔ انہوں نے ون ڈے کرکٹ کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنا انفرادیت قائم کی تھی۔

سعید انور نے اپنے پہلے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد اپنا ٹیسٹ کیریئر بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا۔ وہ یہ سب اس لیے کر پائے کہ انہیں احساس تھا کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں کارنامے اپنی جگہ لیکن بلے باز کی بڑائی جانچنے کا پیمانہ ٹیسٹ ہے۔ اس لیے ایک طرف وہ سنہ 1997 میں انڈیا کے خلاف ون ڈے میں سب سے زیادہ 194 رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف اسی سرزمین پر سنہ 1999 میں کلکتہ ٹیسٹ میں 188 کی یادگار اننگز کھیلتے ہیں اور اس پر مستزاد بیٹ کیری کرتے ہیں۔

ڈربن ٹیسٹ شعیب اختر کی کامیابیوں کا نقطہ آغاز تھا تو کلکتہ ٹیسٹ میں راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو مسلسل دو گیندوں پر بولڈ کر کے وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ون ڈے میں شائقینِ کرکٹ جس طرح سنہ 1992 کے ورلڈ کپ فائنل میں وسیم اکرم کی دو مسلسل گیندوں پر ایلن لیمب اور کرس لیوس کا بولڈ ہونا نہیں بھولے، اسی طرح شعیب اختر کا کلکتہ ٹیسٹ میں مسلسل دو گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو بولڈ کرنا بھی ذہنوں پر نقش ہے۔ شعیب اختر کا کارنامہ وسیم اکرم سے اس لحاظ سے بڑا ہے کہ انہوں نے دو عظیم بلے بازوں کو اس طرح آؤٹ کیا کہ وہ آج تک سمجھ نہیں پائے ہوں گے کہ ان کے ساتھ آخر ہوا کیا تھا۔

ٹیسٹ کرکٹ ایک لمبی دوڑ ہے جس میں کئی ایک مشکل مقام آتے ہیں، ایک کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں آپ گر کر سنبھل سکتے ہیں، ناکامی کو کامرانی میں بدل سکتے ہیں۔ مثلاً کلکتہ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سعید انور صفر پر آؤٹ ہوئے لیکن دوسری اننگز میں 188 رنز بنا کر وہ اس کی تلافی کر دیتے ہیں۔ کل 240 گیندوں کے کھیل میں آپ دولت اور شہرت تو بہت حاصل کر سکتے ہیں لیکن کرکٹ میں عظمت ٹیسٹ کرکٹ میں اعلیٰ کارکردگی سے مشروط ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ اظہر محمود پیشہ ورانہ مہارت سے کھلاڑیوں کی رہنمائی کرتے ہی ہوں گے لیکن کم از کم جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے کارناموں کی مثال دے کر بھی وہ کھلاڑیوں کو انسپائر کر سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسرائیل نے مغربی کنارے میں موجود الجزیرہ کے دفتر کی بندش 7ویں بار بڑھا دی

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا افغانستان کی جارحیت پر سخت ردِعمل، پاک فوج کو خراج تحسین

جعلی ملک ‘ٹورینزا’ کا پاسپورٹ لے کر خاتون کے امریکا پہنچنے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

’ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائے گا‘، صدر اور وزیراعظم کا افغان جارحیت پر سخت ردِعمل

افغانوں کی جرمنی میں جرائم پیشہ سرگرمیاں، ملک بدری کے قدام میں تیزی

ویڈیو

پاکستان اور سعودی عرب کی اٹوٹ دوستی کی علامت فیصل مسجد

کراچی میں چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں؟ واپس کیسے پائیں؟

کراچی سے چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں، انہیں واپس لینے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

کالم / تجزیہ

جین زی: گزشتہ سے پیوستہ

کیا غزہ میں جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی؟ خدشات،اثرات، مضمرات 

پاک سعودی عرب معاہدہ: طاقت کے توازن کی نئی تعبیر