معذوری بظاہر ایک ایسی مجبوری ہے جس سے ہر انسان خوفزدہ رہتا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی مجبوری کو اپنی خدمت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ انہی عظیم انسانوں میں سے ایک ڈاکٹر سلیم الرحمان بھی ہیں، جنہوں نے معذور افراد کے زخموں پر مرہم رکھنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔
ڈاکٹر سلیم الرحمان بنیادی طور پر ارتھوپیڈک (ہڈیوں کے ماہر) ہیں، مگر ان کا اصل کام ہڈیوں سے آگے دلوں کو جوڑنا ہے۔ وہ ان افراد کے لیے مصنوعی ہاتھ اور پاؤں تیار کرتے ہیں جو پولیو، حادثات یا بیماریوں کے باعث اپنے اعضا کھو بیٹھے ہیں، اور یہ سب بالکل مفت کرتے ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم الرحمان نے بتایا کہ اس سال ہم نے تقریباً 250 مریضوں کو مصنوعی اعضا فراہم کیے ہیں۔ ان میں پولیو، فالج، شوگر اور حادثات کے شکار افراد شامل ہیں۔ 100 کے قریب مریضوں کو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت مفت علاج فراہم کیا ہے، مگر ہمارے پاس وسائل محدود ہیں، جبکہ 250 سے زائد مریض اب بھی انتظار میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مصنوعی اعضا کی لاگت 55 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے، جو عام غریب خاندان کے لیے ناممکن ہے۔ ہم نے اب تک اپنے عزیزوں، دوستوں اور چند مخیر حضرات کی مدد سے کام چلایا ہے، مگر ہمیں امید ہے کہ کاروباری طبقہ اور سرمایہ کار بھی اس نیکی میں حصہ ڈالیں گے تاکہ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے لوگ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہو سکیں۔
ڈاکٹر سلیم نے کہا کہ یہ کام میں نے اس وقت شروع کیا جب ایک نوجوان میرے پاس آیا اور روتے ہوئے کہا کہ ’سر، میرے پاس تو 500 روپے بھی نہیں ہیں‘۔ ۔۔۔ مَیں نے اسی وقت اپنے جیب سے پہلا مصنوعی پاؤں بنوا کر دیا، اور وہ لمحہ میری زندگی کا رخ بدل گیا۔ تب سے میں نے عہد کیا کہ ہر سال کم از کم چند ایسے افراد کو زندگی کو سہارا دوں گا۔
آج ڈاکٹر سلیم الرحمان اور ان کی ٹیم نے 50 سے زائد افراد کو دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام میرے لیے محض پیشہ نہیں، عبادت ہے۔ جب کوئی مریض اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے، تو وہ لمحہ سب سے بڑی کامیابی محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم الرحمان بلوچستان کے ان نایاب ہیروز میں سے ہیں جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو وسائل کی کمی بھی انسان کو خدمتِ خلق سے نہیں روک سکتی۔
انہوں نے آخر میں اپیل کی کہ ’میں چاہتا ہوں کہ معاشرے کے صاحبِ حیثیت لوگ آگے بڑھیں، تاکہ ہم مزید ایسے لوگوں کو امید سے جوڑ سکیں جو آج معذوری کے اندھیروں کا شکار ہیں‘۔













