پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور

اتوار 9 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں 7 نومبر 2025 کو مکمل ہوا، مذاکرات میں افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں، عارضی جنگ بندی اور سکیورٹی تعاون کے امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات میں پیشرفت، دفترِ خارجہ نے ڈیڈ لاک کی تردید کر دی

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی مخلصانہ ثالثی کی کوششوں کی قدر کرتا ہے، جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مذاکرات کا بنیادی مقصد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں کے مسئلے کو حل کرنا تھا، جو گزشتہ چار برسوں میں نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔

افغان سرزمین سے دہشتگردی میں تیزی، پاکستان کا تحمل

بیان میں کہا گیا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ان برسوں کے دوران پاکستان نے عسکری اور شہری نقصانات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا، پاکستان کو توقع تھی کہ طالبان حکومت وقت کے ساتھ ان حملوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں تجارتی رعایتیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، تعلیمی و طبی ویزوں کی فراہمی اور عالمی فورمز پر طالبان حکومت سے تعمیری رابطے کی ترغیب شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

ترجمان کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے ان کوششوں کے جواب میں صرف زبانی وعدے اور بے عملی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان کا مطالبہ، دہشتگردوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے مذاکرات کے ہر مرحلے پر اپنے بنیادی مطالبے افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

ترجمان کے مطابق طالبان وفد نے ہر بار اصل مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر غیر متعلقہ یا فرضی معاملات اٹھانے کی کوشش کی تاکہ بنیادی نکتے یعنی دہشتگردی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔

طالبان حکومت کے بہانے، مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکی

ترجمان کے مطابق، طالبان نمائندوں نے استنبول میں ہونے والے تیسرے دور میں بھی دہشتگردی کے مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھائی اور مذاکرات کو طول دینے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ افغان فریق نے مذاکرات کا دائرہ وسیع کر کے غیر حقیقی الزامات اور بے بنیاد دعووں کو شامل کیا۔

دفترِ خارجہ کے مطابق طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، مگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف عملی اقدامات سے گریزاں ہے۔

 دہشتگردی انسان دوست نہیں، سکیورٹی کا مسئلہ ہے

ترجمان نے واضح کیا کہ طالبان حکومت پاکستانی دہشتگردوں کی موجودگی کو انسانی یا پناہ گزینوں کا مسئلہ بنا کر پیش کررہی ہے، حالانکہ یہ سراسر سکیورٹی کا معاملہ ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ان افراد کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو افغانستان میں موجود ہیں، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن کے سرحدی راستوں سے باضابطہ طور پر حوالے کیا جائے، نہ کہ مسلح حالت میں سرحد پار بھیجا جائے۔

پاکستان کسی دہشتگرد گروہ سے مذاکرات نہیں کرے گا

دفترِ خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، مگر کسی دہشتگرد گروہ، جیسے ٹی ٹی پی، ایف اے کے، یا بی ایل اے سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف

ترجمان نے کہا کہ یہ گروہ ریاستِ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں، اور ان کے حامی یا معاون پاکستان کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔

طالبان حکومت کے اندر اختلافات اور بیرونی اثرات

ترجمان نے انکشاف کیا کہ طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، لیکن کچھ گروہ غیر ملکی مالی امداد سے پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کر رہے ہیں۔

یہ عناصر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر داخلی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، مگر اس طرزِ عمل سے وہ پاکستان میں موجود اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔

پاکستانی قوم اور افواج دہشتگردی کے خلاف متحد

دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت کی پروپیگنڈا مہم کے باوجود پاکستان کی افغان پالیسی پر مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ عوام اور افواجِ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یکجان ہیں اور ملک کے اندر یا باہر سے آنے والے کسی خطرے کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔

پشتون قوم پرستی کے بیانیے کی نفی

بیان میں طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی بے بنیاد قرار دیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں پشتون قوم ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہے، جو اعلیٰ سیاسی و انتظامی عہدوں پر فائز ہے۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں شمولیتی نظام پر توجہ دے۔

 پاکستان امن کا حامی مگر دہشتگردی پر زیرو ٹالرنس

ترجمان نے کہا کہ پاکستان امن اور مذاکرات کا خواہاں ہے، تاہم دہشتگردی کے مسئلے کو اولین ترجیح کے طور پر حل کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، جبکہ دہشتگردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس معطل ’انٹرنیٹ صرف سہولت نہیں، ہمارا روزگار ہے‘

خیبرپختونخوا میں منعقدہ جرگے کے بڑے مطالبات، عملدرآمد کیسے ہوگا اور صوبائی حکومت کیا کرےگی؟

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ