رہنما تحریک انصاف اور سینیئر قانون دان لطیف کھوسہ نے صدرِ مملکت کو تاحیات استثنیٰ دینے کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئےاسے آئین، قانون اور اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کو آئین سے کھلواڑ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اب اگر صدر کو تاحیات استثنیٰ دیا جا رہا ہے تو یہ عدالتی عمل اور آئینی توازن کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ میں نمبرز پورے کر لیے، رانا ثنااللہ
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ صدر کو آئین کے مطابق صرف اپنے عہدے کے دوران استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، لیکن تاحیات استثنیٰ دینے کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی کے کمانڈر کو بھی تاحیات استثنیٰ دینے کی تجویز دی جا رہی ہے، جو کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات کونسے ہیں؟
’آرٹیکل 248 ہے۔۔ میں خود گورنر رہا ہوں۔۔۔ صدر اور گورنر دونوں کو اس آرٹیکل کے تحت اس وقت تک استثنیٰ حاصل رہتا ہے جب تک وہ اس عہدے پر فائز رہتا ہے۔
’۔۔۔کسی بھی فوجداری جرم میں اس سے جوابدہی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ تاحیات ہی ہو جائے۔‘
لطیف کھوسہ نے اس فیصلے کو اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ نبی کریمﷺ نے خود کو کوئی استثنیٰ دیا اور نہ ہی کسی صحابی نے۔
مزید پڑھیں:27 ویں آئینی ترمیم کی جُزوی حمایت سے لیکر یکسر مخالفت تک کون سی سیاسی جماعت کیا سوچ رہی ہے؟
’لہٰذا اس طرح کے اقدامات اسلامی و جمہوری روح کے بھی منافی ہیں۔‘
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 126 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے منافی کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
’کہاں گیا اسلامی تشخص اس آئین کا، یہ تو آئین کے دیباچے سے شروع ہوکر آخر تک جاتا ہے کہ اسلام سے کے متصادم اور ماورا کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم پاس ہوچکی، 28ویں ترمیم کی بات کریں، سینیٹر فیصل واوڈا کا دعویٰ
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت ان کو بھی استثنیٰ دیدیا جنہوں نے آئین سے کھلواڑ کیا اور ان کو بھی جنہوں نے 17 نشستوں والے کو وزیراعظم بنادیا۔
’۔۔۔ان کو بھی استثنیٰ دیدیا جنہوں نے فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلمینٹ سے اراکین اسمبلی اٹھالیے۔‘













