صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے 27ویں آئینی ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ ترمیم باقاعدہ طور پر آئینِ پاکستان کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ بل حال ہی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ، دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں ترمیم آئین کی روح کے منافی ہے: اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا
27ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم، انتخابی اصلاحات، اور بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دینا ہے۔ ترمیم میں عدالتی اصلاحات اور پارلیمانی نگرانی کے طریقۂ کار کو مزید مؤثر بنانے کے لیے بھی شقیں شامل کی گئی ہیں۔

ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری سے متعلق چند دفعات میں وضاحت کی گئی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار، انتخابی حلقہ بندیوں اور شفافیت کے عمل کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نئے اصول وضع کیے گئے ہیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم ملک میں جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے، اختیارات کی منصفانہ تقسیم اور آئینی توازن کے قیام کی جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔
پی ٹی آئی کے مستعفی سینیٹر کے ووٹ سے مزید شقیں سینیٹ سے کیسے منظور ہوئیں؟
قبل ازیں سینیٹ نے 27ویں آئینی ترمیم میں قومی اسمبلی کی جانب سے کی گئی مزید 8 ترامیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ ترامیم کے حق میں 64 جبکہ مخالفت میں 4 ارکان نے ووٹ دیا۔
سینیٹ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کا نیا متن سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا، جس کی پہلے شق وار منظوری دی گئی اور پھر حکومتی اور اپوزیشن لابی میں جا کر حمایت کرنے اور مختلف کرنے والوں نے دستخط کیے، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے 27ویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کا اعلان کیا۔
سینیٹ میں چونکہ حکمراں اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت حاصل نہیں تھی اس لیے اپوزیشن کے 2 اراکین پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علمائے اسلام کے احمد خان نے ان ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر کے روز سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی 59 شقوں کی منظوری کے بعد سیف اللہ ابڑو نے سینیٹ کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور وہ ایوان سے چلے گئے تھے، تاہم آج پھر وہ سینیٹ آئے اور انہوں نے اپنا ووٹ ترامیم کے حق میں دیا جس کے بعد ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو سکی۔

سیف اللہ ابڑو کی ایوان میں موجودگی پر پی ٹی آئی سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ سیف اللہ ابڑو پیر کو سب کے سامنے اپنے استعفے کا اعلان کر چکے ہیں تو یہ آج کیسے ووٹ دے سکتے ہیں، جس پر چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سیف اللہ ابڑو نے تحریری طور پر مجھے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا اور نہ ہی آپ کی جماعت پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرایا ہے، اس لیے سیف اللہ ابڑو اس وقت بھی سینٹر ہی ہیں۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صاحب! ہمیں آپ سے بھی بہت شکایت ہے۔ آپ اس ایوان کے محافظ ہیں لیکن آپ ہی ہارس ٹریڈنگ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔
’آپ بجائے اس کے کہ سیف اللہ ابڑو سے کہتے کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی نہ کریں آپ نے ان سے کہا ہم آپ کو دوبارہ سینیٹر منتخب کرا دیں گے، جس پر چیئرمین سینٹ نے جواب دیا کہ میں کیسے ہارس ٹریڈنگ کو پروموٹ کر سکتا ہوں؟۔

انہوں نے کہاکہ میں نے 1987 میں پاکستان پیپلز پارٹی کو جوائن کیا تھا اور تقریباً 38 سال کے دوران میں نے پیپلز پارٹی کو ایک دفعہ بھی نہیں چھوڑا نہ پہ کبھی اپنی پارٹی وفاداری کو تبدیل نہیں کیا، سیف اللہ ابڑو ایک سینیئر رکن ہیں ان کو سینیٹ کا حصہ رہنا چاہیے۔














