افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کن علاقوں میں موجود ہے؟

ہفتہ 15 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حالیہ پاک افغان مذاکرات میں پاکستان نے مؤقف اختیار کیا پاکستان میں دہشتگردی افغانستان سے ہو رہی ہے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس حوالے سے شواہد بھی افغان طالبان حکومت کے حوالے کیے گئے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی اور کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں دہشتگردی میں شدت، ٹی ٹی پی افغانستان سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں طالبان حکومت کی حمایت کے بغیر افغانستان سے کارروائی نہیں کر سکتیں اور مبینہ طور پر انہیں افغان حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں کن علاقوں میں ہیں؟

دفاعی تجزیہ کاروں اور افغان امور کے ماہرین کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے انتہائی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جہاں مختلف کالعدم تنظیمیں سرگرم ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی پھیلا رہی ہیں۔

سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر مشتاق یوسفزئی کے مطابق افغانستان میں بعض تنظیموں کو طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کے مطابق پاکستان مخالف کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں نہ صرف موجود ہے بلکہ فعال بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ٹی ٹی پی معاملے پر افغان طالبان 3 دھڑوں میں تقسیم

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان منتقل ہوئے تھے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کے وقت ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان فرار ہوا تھا، اور اس کے ساتھی آج بھی وہاں موجود ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق افغانستان اس وقت دہشتگردوں کے لیے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے، اور دہشتگرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، جو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

حکام کے مطابق ٹی ٹی پی کابل سمیت کئی افغان صوبوں میں سرگرم ہے، تاہم پاکستان سے ملحقہ صوبوں میں اس کی موجودگی زیادہ مضبوط ہے۔ کنڑ، ننگرہار، خوست، پکتیکا، قندہار، ہلمند اور دیگر علاقوں میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

حکام کے مطابق پکتیکا کے برمل ضلع اور قندہار کے اسپین بولدک اور شاہ ولی کوٹ جیسے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے اہم مراکز قائم ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی تعداد 6 سے 10 ہزار کے درمیان ہے، اور 2021 میں افغان طالبان حکومت آنے کے بعد ان کے لیے مشکلات کم ہوئیں اور انہیں سہولتیں حاصل ہوئیں۔

ٹی ٹی پی کی نئی سرگرمیاں، شمالی افغانستان میں مضبوطی

مشتاق یوسفزئی کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان سے متصل افغان صوبوں میں سرگرم ہے۔

حالیہ مہینوں میں وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں سے بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی جنگجو کنڑ، نورستان اور بدخشاں منتقل ہوئے ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں پہلے سے موجود ٹی ٹی پی کے وہ عسکریت پسند بھی ہیں جو سوات آپریشن کے دوران ملا فضل اللہ کے ساتھ یہاں آئے تھے اور ان کی مضبوط پناہ گاہیں موجود ہیں۔

بارڈر کے قریب کون سے افغان علاقے محفوظ پناہ گاہیں ہیں؟

سینیئر صحافی منظور علی کے مطابق ٹی ٹی پی انہی افغان علاقوں میں مضبوط ہے جو پاکستان کے شورش زدہ اضلاع سے ملحق ہیں۔

ان کے مطابق وزیرستان، خیبر، باجوڑ، مہمند، چترال اور دیگر سرحدی علاقوں سے متصل افغان علاقوں میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان حکومت میں شامل ہیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف

انہوں نے بتایا کہ چترال سے ملحقہ علاقے کنڑ میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے اہم رہنماؤں کی پناہ گاہیں بھی وہیں ہیں۔ 2018 میں ٹی ٹی پی کے سابق امیر ملا فضل اللہ بھی کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ کنڑ سے چترال بارڈر پر متعدد حملے بھی کیے گئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی بھرتی افغانستان میں کیوں ہو رہی ہے؟

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی افغانستان سے منظم ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق، ‘جو لوگ افغان طالبان کے لیے جنگ لڑتے رہے، حکومت بننے کے بعد وہ بیروزگار ہوئے اور اب ٹی ٹی پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ چونکہ ٹی ٹی پی سے افغان طالبان کو کوئی خطرہ نہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف اقدام نہیں کرتے۔’

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی متعدد دہشتگردی کارروائیوں میں افغان باشندوں کا ملوث ہونا تفتیش کے دوران ثابت ہو چکا ہے۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟

سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کے مطابق افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ٹی ٹی پی ان کے ‘جہادی ساتھی’ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان دوحہ معاہدہ: کیا افغان طالبان دیرینہ جہادی گروپ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے؟

ان کے مطابق طالبان حکومت اپنے دیرینہ اتحادیوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گی، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں اندرونی بغاوت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

محمود خان بابر کے مطابق بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نظریاتی طور پر قریب ہیں، اسی لیے طالبان حکومت ان کے خلاف کسی بڑے اقدام سے گریز کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے