پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دنوں تک خونریز لڑائی اور کشیدہ سفارتی تعلقات کے بعد دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد جنگ بندی ہوگئی، جس کے بعد پاک افغان سرحدوں پر حالات معمول پر آگئے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق قطر، ترکیہ اور سعودی عرب کی ثالثی میں مذاکرات کامیاب ہو گئے اور پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کے مطالبے کو افغان طالبان نے مان لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
تجزیہ کاروں کے مطابق کئی دنوں کی لڑائی اور کشیدہ صورت حال نے افغان حکام کو مذاکرات اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے حامی بھرنے پر مجبور کردیا، جس پر عملدرآمد اور مدد ثالث اسلامی ممالک بھی کریں گے۔ پاکستان نے دوحہ معاہدے کو اہم قرار دیا ہے جو پاکستان میں افغانستان سے دہشتگردی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے؟
پاکستان حکومت کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاکستان کے ساتھ افغان سرحدی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے ہیں اور وہ پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان نے کئی بار یہ معاملہ طالبان حکام کے ساتھ اٹھایا، کچھ حد تک ٹی ٹی پی کو روکا بھی گیا لیکن وقت کے ساتھ وہ پھر سرگرم ہو جاتے ہیں۔ تجزیہ کار پاک افغان دوحہ معاہدے کو اہم قرار دے رہے ہیں، جس میں دوست اسلامی ممالک قطر، سعودی عرب اور ترکیہ ثالث ہیں۔
عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں سینیئر فیکلٹی ممبر ہیں۔ وہ دہشتگردی اور افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق افغان طالبان حکومت کو دوحہ معاہدے کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ’افغان طالبان نے دوحہ میں امریکا کے ساتھ بھی معاہدہ کیا، اور ابھی پاکستان کے ساتھ کیا، اس پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔‘
عرفان اشرف طالبان عبوری حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف ممکنہ کارروائی کو چیلنج قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں صرف ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ کئی مسلح گروپس یا تنظیمیں سرگرم ہیں، اور ٹی ٹی پی والے کسی اور نام سے دوبارہ سرگرم ہو سکتے ہیں یا کسی اور گروپ میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی افغان حکومت کے لیے خطرے کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ افغان حکام کو پاکستان کے مؤقف کو ماننا پڑے گا، تاہم اس کے لیے پاکستان، ایران، امریکا اور دیگر ممالک کو مل کر افغان طالبان پر دباؤ ڈالنا پڑے گا اور تب ہی اس دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان سے دہشتگردی کا خاتمہ آسان ہے لیکن اس کے لیے سب کو متحد ہونا پڑے گا، تاہم طاقتور ممالک کے اپنے مفادات ہیں اور وہ اس میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کا ماننا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس سے پہلے بھی کئی معاہدے ہوئے ہیں، لیکن حالیہ دوحہ معاہدے سے امریکا کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی یاد تازہ ہو گئی، جس میں افغانستان نے معاہدہ کیا تھا کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ اس معاہدے سے پاکستان اور دیگر ممالک تو خوش ہیں لیکن افغان طالبان کے جہادی ساتھی ٹی ٹی پی اور دیگر ناراض ہو گئے ہیں، جس سے افغان حکومت کو اندرونی دہشتگردی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کیا ٹی ٹی پی کو مکمل ختم کیا جا سکتا ہے؟
علی اکبر پشاور میں ڈان نیوز کے بیوروچیف ہیں۔ وہ افغان امور اور دہشتگردی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پاک افغان دوحہ معاہدہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان اس معاملے پر کئی بار مذاکرات اور معاہدے کر چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے افغان طالبان اپنی بات پر قائم نہیں رہتے اور معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتے۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے ٹی ٹی پی کا خاتمہ مشکل نہیں لیکن افغان طالبان خود نہیں چاہتے، اور وہ ٹی ٹی پی کو مفت میں فرنٹ لائن پر استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار دیگر اسلامی ممالک بھی اس معاہدے کا حصہ ہیں، اس لیے افغان طالبان پر دباؤ ضرور ہوگا اور وہ کچھ حد تک ٹی ٹی پی کو روکیں گے بھی، لیکن اگر زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو افغانستان میں اندرونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
محمود جان بابر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، ان کے مطابق ٹی ٹی پی افغان طالبان کے نظریاتی اور جہادی ساتھی ہیں، اور وہ انہیں ختم نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان بھی ہیں، اور حالیہ حملوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ آئے 180 افغان دہشتگرد بھی مارے گئے۔
محمود جان کے مطابق طالبان حکومت اگر ٹی ٹی پی کو ختم نہیں کر سکتی تو اپنے لوگوں کو روک سکتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی کو روکنے کے طریقے ان کے پاس موجود ہیں اگر وہ چاہیں تو۔
افغانستان سے دہشتگردی کو روکنے والے حالیہ دوحہ معاہدے میں کیا ہے؟
فدا عدیل سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ دوحہ معاہدہ خفیہ ہے جو طویل مذاکرات کے بعد ہوا۔ ان کے مطابق دوحہ میں ٹی ٹی پی اور افغانستان سے دہشتگردی پر طویل بات چیت ہوئی ہے جس میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں کو پاکستان کے قریبی مشرقی علاقوں سے نکال کر وسطی افغانستان میں بسایا جائے۔
انہوں نے کہاکہ منصوبہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کو افغانستان میں ہی آباد کیا جائے، ان سے اسلحہ لیا جائے، اور ان لوگوں کو واپس پاکستان آنے کی اجازت ہو جو پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسداری کریں اور پرامن شہری کے طور پر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں۔ اس حوالے سے مکمل سروے پر بھی بات ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دوحہ میں نتیجہ خیز مذاکرات کے بعد پاکستان و افغانستان فوری جنگ بندی پر متفق
فدا عدیل کے مطابق افغانستان نے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے مالی مدد پر بھی زور دیا ہے جس پر اتفاق بھی ہوا ہے، اور دوست اسلامی ممالک بھی اس میں مدد کریں گے۔
ان کے مطابق دوست ممالک کی مدد سے ان دہشتگردوں سے اسلحہ لے کر انہیں وسطی علاقوں میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جائے گا۔













