اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں الخلیل (ہیبرون) کے قدیم شہر میں فلسطینیوں پر کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور غیر قانونی آبادکاروں کو ایک یہودی تہوار منانے کی اجازت دینے کے لیے مسجدِ ابراہیمی مسلمانوں کے لیے بند کر دی ہے۔
ہیبرون ڈیفنس کمیٹی کے رکن اور مقامی رہائشی عارف جابر نے انادولو کو بتایا کہ جمعے کی صبح سے پرانے شہر کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ ان کے مطابق اسرائیلی فورسز نے قدیم شہر جانے والے تمام فوجی چیک پوائنٹس بند کر دیے ہیں اور آمدورفت مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے مزید 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں
بہت سے فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت نہیں ملی اور انہیں ہیبرون کے دیگر علاقوں میں رشتے داروں کے گھر رات گزارنا پڑی۔ جابر کے مطابق جمعے کی رات اور ہفتے کی صبح سینکڑوں غیر قانونی آبادکار فوج کی بھاری نفری کے حصار میں پرانے شہر میں داخل ہوئے اور گلیوں میں اشتعال انگیز ریلیاں نکالیں۔
انہوں نے کہا کہ کرفیو کا مقصد مسجدِ ابراہیمی کے باقی حصے پر مکمل قبضہ کر کے اسے یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا ہے۔
آبادکاروں کا یہ جشن ’سارہ ڈے‘ کے نام سے منائے جانے والے ایک یہودی مذہبی دن کا حصہ ہے، جو ہر سال ہیبرون میں منایا جاتا ہے اور جسے یہودی تاریخی بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینی قیدیوں پر تشدد، اقوام متحدہ نے اسرائیل کو کٹہرے میں کھڑا کردیا، سخت سوالات
فلسطینی وزارتِ اوقاف کے مطابق اسرائیلی حکام نے 2025 کے آغاز سے مسجدِ ابراہیمی کے سوق گیٹ کو روزانہ بند رکھا ہے اور مشرقی دروازے کو بھی مکمل طور پر بند اور اس کی کھڑکیوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔
مسجدِ ابراہیمی ہیبرون کے پرانے شہر میں واقع ہے، جو مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں ہے اور جہاں تقریباً 400 غیر قانونی آبادکار رہتے ہیں جن کی حفاظت کے لیے تقریباً 1500 اسرائیلی فوجی تعینات ہیں۔
1994 میں ایک غیر قانونی آبادکار کے ہاتھوں 29 فلسطینی نمازیوں کے قتلِ عام کے بعد اسرائیل نے مسجد کو تقسیم کر کے 63 فیصد حصہ یہودی عبادت کے لیے اور 37 فیصد حصہ مسلمانوں کے لیے مختص کر دیا تھا۔ یہودیوں کو دیا گیا حصہ مسجد کے موذن خانے تک پر مشتمل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مسئلہ فلسطین اجاگر کرنے کے لیے ہسپانوی اور فلسطینی فٹبال ٹیموں کے میچز کا انعقاد
یک طرفہ اسرائیلی انتظامات کے تحت مسجد سال میں 10 یہودی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کے لیے مکمل بند رہتی ہے اور 10 اسلامی مواقع پر یہودیوں کے لیے بند کی جانی چاہیے، تاہم غزہ جنگ کے اکتوبر 2023 میں آغاز کے بعد سے مسلمان تہواروں پر مکمل رسائی فراہم نہیں کی گئی۔












