بھارت میں فوجی قیادت کی سیکولر اور غیرجانبدارانہ روایات پر خدشات بڑھ رہے ہیں، کیونکہ حالیہ برسوں میں بھارتی فوج میں ہندو قوم پرستی کے اثرات واضح طور پر نمودار ہو رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بھارتی مسلح افواج کی موجودہ قیادت حکومت کی سیاسی اور مذہبی ایجنڈا کے لیے ’ہاں میں ہاں‘ ملانے والی پوزیشن میں آ چکی ہے، جس سے فوج کی پیشہ ورانہ غیرجانبداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی آرمی چیف کے ’دھرم یُدھ‘ والے بیان پر نئی بحث چھڑ گئی، فوج میں مذہبی رنگ شامل ہونے پر تشویش
حالیہ مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہان ملکی سیاسی بیانیوں اور مذہبی رسم و رواج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
اس ضمن میں بھارتی آرمی چیف اور نیوی چیف نے متعدد مواقع پر پاکستان کے خلاف سیاسی نوعیت کے بیانات دیے، جو بعض حلقوں کے مطابق بی جے پی کی طرف سے فوج کو سیاسی اور مذہبی ایجنڈے میں شامل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

حکومت کی جانب سے فوجی کارروائیوں کے ’سندور‘ اور ’مہادیو‘ جیسے نام بھی سیکولر روایات سے انحراف کی عکاسی کرتے ہیں، جس سے ہندو قوم پرستی کے سیاسی اشاروں میں بھارتی فوج ملوث نظر آ رہی ہے۔
جنوری 2025 میں، 1971 کی جنگ کی مشہور پینٹنگ کو نئے آرٹ ورک ’کرَم کھیتر‘ سے تبدیل کیا گیا، جس میں جدید فوجی سازوسامان کے ساتھ ساتھ چانکیا اور کرشن جیسی ہندو دیومالائی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا، جس سے سیکولر فوجی روایت کے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔
مزید پڑھیں:بھارتی فوج میں بڑھتی بےچینی، بھارتی آرمی چیف کا ملکی دفاعی صنعت پر عدم اعتماد کا اظہار
مئی 2025 میں، پاک بھارت جنگ بندی کے بعد، آرمی چیف نے یونیفارم میں مدھیہ پردیش کے چترکوٹ میں ہندو روحانی رہنما جگدگورو رمبھدرچاریہ کے آشرم کا دورہ کیا۔
روحانی رہنما کے مطابق، آرمی چیف کو ہندو مذہبی دیکشا دی گئی اور انہیں مقبوضہ آزاد جموں و کشمیر کی واپسی کو بطور ’دکشینا‘ یعنی نذر کرنے کی درخواست بھی کی گئی، جسے بعض حلقے فوج کی غیرجانبداری کی حد سے تجاوز قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:ماؤ نواز علاقوں میں تعینات بھارتی فوجی اہلکاروں کی خودکشیاں بڑھنے لگیں
اسی طرح، 31 اکتوبر 2025 کو قومی یگانگت کے دن پر آرمی چیف نے ریاست مدھیہ پردیش میں اپنے آبائی شہر ریوا میں مذہبی رسومات میں حصہ لیا، جس میں تلک اور گلدستے کے ساتھ مذہبی علامات کا مظاہرہ کیا گیا اور وہ اس دوران یونیفارم میں موجود تھے۔
ماہرین کے مطابق، یہ تمام پیش رفت بھارتی فوج کی سیکولر شناخت کو خطرے سے دوچار کرتی اور فوج کی پیشہ ورانہ شبیہ اور سیاسی غیرجانبداری پر سوالات پیدا کرتی ہیں۔














