خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سنہ 2008 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں جیت کر بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی جس کے بعد اس نے صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخابات کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
عوامی نیشنل پارٹی نے سنہ 2013 تک صوبے میں حکومت کی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی۔ یہ ان کی صوبے میں پہلی حکومت تھی لیکن اس کے بعد ہر انتخابات میں اے این پی کی پوزیشن مسلسل کمزور ہوتی گئی۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے سابقہ حکمران جماعت اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں لیں اور حکومت بنائی۔ اس کے بعد صوبے میں اے این پی کی پوزیشن بطور اپوزیشن مسلسل کمزور ہوتی چلی گئی۔
جبکہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت اے این پی کے اب صوبائی اسمبلی میں صرف 2 منتخب نمائندے ہیں۔
بائیں بازو کی قوم پرست جماعت کی مقبولیت کم ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کا صوبے میں بڑا ووٹ بینک تھا اور پشاور، مردان، چارسدہ، بونیر اور دیگر اضلاع کو اے این پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورت حال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیے: پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے الیکشن 2024 کو بدترین انتخابات قرار دے دیا
پارٹی کی مقبولیت میں متواتر کمی کا سلسلہ پاکستان تحریک انصاف کی سنہ 2013 میں کامیابی اور حکومت بننے سے شروع ہوا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اے این پی اب بھی صوبے کی بڑی جماعت ہے البتہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی کی عوامی مقبولیت پہلے جیسی نہیں رہی اور مسلسل کم ہو رہی ہے۔
عمران یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اے این پی اب بھی روایتی سیاست کر رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کو بہتر انداز میں استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے اے این پی پیچھے نظر آ رہی ہے۔
تجزیہ کار احتشام بشیر بھی عمران یوسفزئی سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اے این پی کی مقبولیت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ پشاور پہلے بلور خاندان کی وجہ سے اے این پی کا گڑھ تھا مگر اب وہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
ثمر ہارون بلور نے اے این پی کو خیرباد کہہ دیا جبکہ بشیر بلور عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہیں جس سے اے این پی کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: اے این پی کو خیر باد کہنے والی بلور خاندان کی واحد خاتون سیاستدان ثمر ہارون بلور کون ہیں؟
احتشام بشیر کے مطابق اے این پی کی تاریخ دیکھی جائے تو این اے پی سے اے این پی بننے تک اور 80 کی دہائی کے بعد بھی پارٹی زیادہ تر اپوزیشن میں رہی ہے۔
90 کی دہائی میں کچھ وقت اقتدار میں رہی لیکن اس کے باوجود پارٹی مقبول تھی اور ووٹ بینک مضبوط تھا۔ لیکن اب نظریاتی لوگ یا تو سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں یا کسی اور پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔
’اے این پی کمزور ہوئی ہے، ختم نہیں‘
پشاور کے سینئر صحافی ظفر اقبال کے مطابق پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد اے این پی کی پوزیشن کمزور ہوئی اور انتخابات میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سیاسی جماعتیں کمزور بھی ہوتی ہیں اور پھر مضبوط ہوکر اوپر بھی آجاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما مولانا خانزیب قاتلانہ حملے میں جاں بحق
انہوں نے کہا کہ سیاست میں سب کچھ بیانیہ ہوتا ہے اور اگر آپ کا بیانیہ مؤثر ہو تو ووٹر آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ آج کل پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔
ظفر اقبال کے مطابق اے این پی کمزور ضرور ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی اور بطور اپوزیشن مؤثر آواز اٹھا رہی ہے۔
ان کے مطابق ولی خان کے دور میں پارٹی اپوزیشن میں تھی۔ پھر اسفندیار ولی کے دور میں بیانیے میں تبدیلی آئی اور جماعت پہلی بار اقتدار میں بھی آئے۔
وفاق میں اتحادی رہ کر صوبے کا نام بھی تبدیل کیا اور اس کے بعد ایمل ولی کا دور آیا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اے این پی کے بانی رہنما سخت اصولی مؤقف، جدوجہد اور نظریات کے باعث جیلیں کاٹتے رہے لیکن اقتدار کے لیے سمجھوتہ نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: 13 سالہ پی ٹی آئی حکومت ناکام، کرپشن کی انتہا ہوچکی، میاں افتخار حسین
ان کے مطابق ایمل ولی خان کا بلوچستان سے بغیر نشست کے سینیٹر بننا ہی اے این پی کے نظریے کے خلاف ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عوامی نیشنل پارٹی سخت گیر بائیں بازو کی سیاست کرتی آئی ہے لیکن سنہ 1990 کی دہائی سے اس کے مؤقف میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔
’اے این پی میں تبدیلی آ چکی ہے‘
پشاور کے سینیئر صحافی منظور علی کے مطابق موجودہ اے این پی میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔
ان کے مطابق اے این پی کی ابتدا نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے ہوئی تھی جو بنیادی طور پر بائیں بازو کی سیکولر جماعت تھی۔ انہی نظریات کی وجہ سے سنہ 1975 میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
منظور علی کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے بانی باچا خان تھے جو عدم تشدد کے علمبردار اور سیاسی مزاحمت کے حامی تھے۔
مزید پڑھیے: ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
این اے پی پر پابندی کے بعد ان کے بیٹے ولی خان نے اے این پی کے نام سے اسی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا۔
اے این پی نے ہمیشہ جمہوریت، انصاف اور صوبائی خودمختاری کے لیے آواز بلند کی۔
ایوب خان اور ضیاءالحق جیسے فوجی حکمرانوں کی مخالفت کرنے والی جماعت وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی گئی اور سنہ 2008 میں پہلی بار اقتدار میں آئی۔
منظور علی کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست نہیں کہ تبدیلی صرف ایمل ولی کے دور میں آئی بلکہ یہ عمل سنہ 1990 میں شروع ہوا اور سنہ 2001 میں مشرف دور میں پارٹی نے فوجی آپریشنز کی حمایت بھی کی گئی۔

سینیئر صحافی کے مطابق اے این پی کی یہی تبدیلی ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی جس پر توجہ نہیں دی گئی اور یہی وجہ ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت عام انتخابات میں صرف 2 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی جو اس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میں ابن غدار، ابن غدار، ابن غدار کا بیٹا ہوں، ایمل ولی خان
منظور علی کا کہنا ہے کہ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کا مؤقف ہے کہ پارٹی اپنی اصولی موقف اور سیاست پر قائم ہے۔
اے این پی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان کا ماننا ہے کہ ان کی جماعت ہی پختونوں کی نمائندہ جماعت ہے اور اپنے حالیہ بیانات میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے کیونکہ مستقبل اے این پی کا ہی ہے۔













