برازیل کے شہر بیلیم میں منعقد ہونے والی 2 ہفتوں پر مشتمل کوپ30 عالمی ماحولیاتی کانفرنس بالآخر ایک چھوٹے مگر اہم پیش رفت کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، تاہم موسمیاتی بحران کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے یہ اقدام ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کے 194 ممالک صرف اس بات پر متفق ہو سکے کہ فوسل فیول کے مرحلہ وار خاتمے کے لیے رضاکارانہ طور پر ایک ’روڈمیپ‘ پر بات چیت شروع کی جائے گی، اس اجلاس میں امریکا نے اپنا کوئی وفد نہیں بھیجا۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو غیر معمولی موسمیاتی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، وزیراعظم کا بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب
کانفرنس آخری رات بحرانی صورتِ حال سے دوچار رہی، جب 80 سے زائد ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک اور تیل پیدا کرنے والے روس اور ان کے اتحادی ممالک کے درمیان سخت تعطل پیدا ہوگیا۔ طویل مذاکرات کے بعد فریقین کسی نہ کسی حد تک اتفاق رائے تک پہنچے، جس پر ماحولیاتی کارکنوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔
ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی موافقت (adaptation) کے لیے مالی امداد میں اضافہ تو ملا، مگر مطلوبہ رفتار سے نہیں۔ اب انہیں 2035 تک سالانہ 120 ارب ڈالر ملیں گے، حالانکہ وہ یہ رقم 2030 تک چاہتے تھے۔
جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے روڈمیپ کا اخراج جنگلات کے تحفظ کے علمبردار ممالک کے لیے شدید صدمہ ثابت ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں نے ترقی کے حاصل شدہ ثمرات کو الٹ دیا، اسحاق ڈار
اختتامی متن میں عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری ہدف برقرار رکھنے پر زور تو دیا گیا، مگر ناکافی قومی اقدامات پر کسی ملک کی سرزنش شامل نہ کی گئی۔ ’این ڈی سیز ایکسلریٹر‘ پروگرام کے قیام کا اعلان کیا گیا، جو اگلے سال ترکی میں ہونے والی کوپ میں پیش رفت رپورٹ کرے گا۔
کانفرنس نے ’جسٹس ٹرانزیشن‘ کی شمولیت کے ذریعے مزدوروں اور کمزور طبقات کے لیے منصفانہ تبدیلی کی اہمیت کو تسلیم کیا، تاہم اہم شقیں چین اور روس کی مخالفت کے باعث شامل نہ ہوسکیں۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں یہ سمجھوتا پیش رفت تو ضرور ہے، مگر موسمیاتی بحران کی شدت کے مقابلے میں شدید ناکافی ہے۔














