اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے ججوں کے تبادلے سے متعلق معاملے پر دائر انٹرا کورٹ اپیل سپریم کورٹ کو واپس بھجوانے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
وفاقی آئینی عدالت نے ججز ٹرانسفر کیس سے متعلق 9 میں سے 5 انٹرا کورٹ اپیلیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم 6 رکنی آئینی بینچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی عدم پیروی کے باعث درخواست نمٹا دی۔
یہ بھی پڑھیں: ججز ٹرانسفر کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت عدالت میں چیلنج
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیل کے سلسلے میں کوئی بھی وکیل یا نمائندہ پیش نہیں ہوا۔
عدم پیروی کے باعث بینچ نے درخواست کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ چونکہ درخواست گزاروں کی جانب سے کارروائی کو آگے بڑھانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی، اس لیے مزید کارروائی کی ضرورت نہیں رہتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے علاوہ خارج کی جانے والی درخواستوں میں جسٹس (ر) طاہر فراز عباسی، کراچی بار ایسوسی ایشن، ریاست علی آزاد اور شعیب شاہین کی اپیلیں شامل تھیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش نہ ہونے اور اپیلوں کی پیروی نہ کرنے کے باعث ان مقدمات کو مزید جاری رکھنا ممکن نہیں۔
آئینی عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز اور دیگر کی جانب سے دائر انٹراکورٹ اپیلیں مسترد کرکے سپریم کا فیصلہ برقرار رکھا ، جس میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ کثرت رائے سےدرست قرار دیا تھا۔
سماعت کے دوران آئینی عدالت نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا کو اپنے تحریری اعتراضات جمع کرانے کے لیے مہلت دے دی، جبکہ بانی پی ٹی آئی اور راجہ مقصود نواز خان کو اضافی گزارشات فائل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔
مزید پڑھیں:ججوں کے تبادلے سے متعلق قانون کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو متاثر کرے گا؟
عدالت نے مزید کارروائی کے لیے کوئی نئی تاریخ مقرر نہیں کی اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے چند ماہ قبل اپنے تنازعات اور شکایات سے متعلق ایک خط کے پس منظر میں مختلف آئینی سوالات سپریم کورٹ میں اٹھائے تھے۔
ان میں ججز کی ٹرانسفر کے اختیارات، وفاقی آئینی عدالت کے قیام یا دائرہ اختیار سے متعلق ابہام، اور اعلیٰ عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملات شامل تھے۔














