یہ نہ کوئی جذباتی بات ہے نہ مبالغہ، یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ دیوبند کے سب سے بڑے محسن قائد اعظم تھے۔ محترم ابوالکلام آزاد نے بھلے یہ بات اپنی پیش گوئیوں میں نہ لکھی ہو لیکن ایک وقت آئے گا دیوبند اس حقیقت کا اعتراف بھی کرے گا اور قائد اعظم کا شکریہ بھی ادا کرے گا۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو 1894 میں پرائیوی کونسل کی جانب سے و قف علی الاولاد کو فراڈ قرار دینے کے بعد مسلمانوں کے عام اوقاف کے لیے بھی خطرات پیدا ہو گئے تھے اور آگے چل کر دارالعلوم دیوبند سمیت کسی بھی ایسے ادارے کا باقی رہنا ہی مشکل ہو جانا تھا جو وقف کے اسلامی اصول کے تحت قائم ہوا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: آزادی رائے کو بھونکنے دو
یہ قائد اعظم تھے جو اس برطانوی فیصلے کے خلاف کھڑے ہو گئے اور ایک طویل سیاسی ، قانونی اور پارلیمانی جدوجہد کے بعد 1913 میں برطانوی امپیریل لیجسلیٹو کونسل سے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اس فیصلے کو کالعدم قراار دلواتے ہوئے مسلمانوں کے وقف کو قانونی تحفظ فراہم کیا ۔
قائد اعظم کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ اصل میں مسلمانوں کی کامیابی تھی۔ لیجسلیٹو کونسل میں ایک رکن نے قائد اعظم کو مبارک دیتے ہوئے کہا: جناح نے تاریخ رقم کر دی۔ یہ الگ بات کہ دیو بند کے اکابرین نے شاید ہی کبھی اپنے طلبا کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی ہو کہ دیوبند سمیت مسلم وقف کے تحت قائم ہزاروں اداروں کا ایک خاموش محافظ اور محسن تھا جس کا نام محمد علی جناح تھا۔
پچھلے سال بھارت نے قائد اعظم کے بنوائے 1913 کے اسی قانون میں کچھ تبدلیاں کیں تو دیوبند کے وائس چانسلر نے اسے مسلمانوں کے مذہبی ورثے پر حملہ قرار دیا اور مدنی صاحب نے سپریم کورٹ جا کر کہا کہ اس قانون میں تبدیلی سے مسلمانوں کی مساجد باقی بچیں گی نہ دیگر مذہبی مقامات ۔ سوال یہ ہے کہ اگر قائد اعظم کے بنوائے گئے اس قانون میں تبدیلی مسلم ورثے پر حملہ ہے توقائد اعظم کو مسلمانوں کے مذہبی ورثے کا محافظ قرار دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ قائد اعظم کے بنوائے گئے قانون میں اگر صرف ترمیم سے ہی مدارس اور مساجد کو اتنا خطرہ ہے تو ان مدارس اور مساجد کے تحفظ کی خاطر قائد اعظم کے اس تاریخی کردار کی تحسین کر لینے میں کون سی رکاوٹ ہے؟
مزید پڑھیے: تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟
ایک اور پہلو اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور اہم ہے ۔ قائد اعظم نے آگے چل کر پاکستان کی بنیاد رکھی ، کوئی مانے یا مانے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان ، دیو بند کو ابوالکلام کے ہندوستان سے زیادہ راس آیا۔
دیوبند سے وابستہ ایک گروہ قائد اعظم کے پاکستان میں ہے جو اتنا معتبر ہے کہ قومی سیاست کا مرکز و محور ہے، دوسری جانب دیوبند کا مرکز ابوالکلام کے ہندوستان میں ہے اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سیاست سے ہی لاتعلق ہوا پڑا ہے۔ بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ہم صرف درس و تدریس تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیوبند تو بنیادی طور ایک سیاسی تحریک تھی، یہ غیر معمولی سیاسی تحریک ہندوستان میں سیاست سے لاتعلق ہوئی پڑی ہے۔ البتہ جناح کے پاکستان میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی شکل میں یہ سیاست کا مرکز و محور ہے۔
ہندوستان میں دیوبند کو ہندتوا سے اتنا خطرہ ہے کہ وہ سیکولرزم کو ہی غنیمت سمجھ چکی ہے کہ ہندتوا کی بڑی برائی سے جان بچ جائے ، وہ ہم پر مسلط نہ ہو ، اس لیے ہندو شاؤنزم کے مقابلے میں سیکولرزم ہی اچھا ہےاور گوارا ہے۔ ادھر جناح کے پاکستان میں مولانا فضل الرحمن گرجتے بھی ہیں اور برستے بھی ہیں ، اسلام کی بات بھی کرتے ہیں اور کسی میں جرات نہیں کہ انہیں دیوار سے لگا سکے۔
ہندوستان کے دیو بند کی بے بسی یہ ہے کہ مولانا اردشد مدنی اب وائس چانسلروں کی تعنیاتی تک میں محرومی اور زیادتی کے شکوے کرنے پر مجبور ہیں ، لیکن جناح کے پاکستان میں دیوبند والوں کی شان یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے تیور بگڑ جائیں تو ساری قومی سیاست ان کے در دولت پر حاضر ہو جاتی ہےاور اس وقت بھی وہ قائد حزب اختلاف کے منصب کے لیے موزوں ترین انتخاب تصور کیے جا رہے ہیں۔
جو پاکستان بنانے کے ’گناہ‘ میں شریک نہ تھے پاکستان نے انہیں دل سے لگایا اور فیصلہ سازی کے رتبے پر بٹھا لیا ۔ جو متحدہ ہندوستان کے ’ثواب‘ کماتے رہے وہ اب بے بسی کے عالم میں شکوہ کناں ہیں کہ ہمارا مسلمانوں کا تو اب کوئی وائس چانسلر بھی نہیں بن سکتا۔
ایک عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ابوالکلام کے دیس میں ہندو مسلمان بھائی بھائی بن کر رہنے تھے لیکن جناح نے الگ ملک بنا کر بھارت کے مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کر دیے اور یوں ابولکلام کا خواب پورا نہ ہو سکاا۔ ۔ قائد اعظم کا ساتھ نہ دینے والوں کی بے بصیرتی کے علاوہ اس موقف میں کچھ بھی نہیں۔
مزید پڑھیں: کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟
ہندوؤں کا غصہ صرف قیام پاکستان پر نہیں تھا، انہوں نے مسلمانوں سےصدیوں کے بدلے چکانے تھے۔ پاکستان نہ بھی بنتا تو ہندو شاؤنزم نے یہی کچھ کرنا تھا بلکہ زیادہ بے رحمی سے کرنا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوؤں نے انگریز کا ساتھ اسی نفرت اور کدورت کے تحت دیا اور اسی نفرت کا مسلسل مشاہدہ کرنے کے بعد قائد اعظم کو االگ ملک کا مطالبہ کرنا پڑا ورنہ وہ تو خود ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے۔ یہ قائد اعظنم کی بصیرت تھی کہ جس ہندو شائونزم کی دیوبند کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی وہ اسے عشروں قبل جان گئے تھے۔
ابولکلام آزاد نے بھلے یہ ییش گوئی نہ کی ہو لیکن دیو بند کو ایک نہ ایک دن یہ بات ماننا پڑے گی کہ انہیں جناح کا پاکستان زیادہ راس آیا۔ ایک وقت آئے گا وہ اپنے اس محسن کا شکریہ ادا کریں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













