فنون لطیفہ کی دنیا میں مصنوعی ذہانتی یا اے آئی صرف ٹول ہی نہیں بلکہ اب تخلیقی شراکت دار کے طور پر بھی ابھر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مصنوعی ذہانت موزوں سائز کے کپڑے خریدنے میں مدد کر سکتی ہے؟
ٹوکیو آرٹ ویک کے چوتھے ایڈیشن میں جاپانی فنکاروں نے اے آئی کو اپنی تخلیقی عمل میں شامل کیا جس سے انسانی اور مشینی تعاون کے نئے امکانات سامنے آئے۔
مرکزی نمائش ’واٹ از ریئل‘ میں کمپوزر اور ویژول آرٹسٹ ٹومومی اداچی نے ایسے آلات پیش کیے جو اے آئی کے ذریعے تخلیق کیے گئے تھے۔
یہ آلات انسانی ہاتھ اور سانس کے مطابق نہیں تھے اس کے باوجود اداسی اور ہلکی دھنوں کے امتزاج سے ایک منفرد تجربہ پیش کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چین میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کمالات: بزرگوں کی خدمت گار، نابیناؤں کی ’آنکھ‘، اور بہت کچھ!
اسی دوران، کیئچیرو شیبویا کی ’اینڈرائیڈ اوپرا مرر، ڈی کنسٹرکشن اینڈ ری برتھ‘ میں ایک ایڈوانسڈ ہیومنائڈ روبوٹ’اینڈرائیڈ ماریہ‘ نے 62 رکنی آرکسٹرا اور بدھ مت کے راگ کے ساتھ لائیو پرفارمنس دی۔
روبوٹ کی خودکار کارکردگی اور اے آئی کی مدد سے موسیقی اور جذباتی اظہار نے اس پرفارمنس کو انسانی اور مشینی تعاون کا مثالی نمونہ بنایا۔
مزید پڑھیں: کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
فنکار یُما کیشی نے بھی اے آئی کی تخلیقی شراکت داری پر روشنی ڈالی۔ ان کے پروجیکٹس جیسے ’دی فرینکشٹائن پیپرز‘ اور ’بوٹانیکل انٹیلجنس‘ میں اے آئی کو محض آلہ نہیں بلکہ شریک تخلیق کار اور انسانی فہم سے آگے ایک غیر متوقع ذہانت کے طور پر استعمال کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق اے آئی کا یہ کردار فنون لطیفہ میں صرف تکنیکی انقلاب نہیں بلکہ انسانی مرکزیت اور تخلیقی حدود پر بھی سوال اٹھاتا ہے جہاں یہ ٹولز کام کے مواقع متاثر کرسکتے ہیں وہیں یہ انسانی تصور سے آگے بڑھ کر نئے تخلیقی تجربات کی راہیں بھی کھولتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
ٹوکیو آرٹ ویک نے اس بات کو اجاگر کیا کہ مستقبل کے فنون لطیفہ میں انسانی اور مشینی تعاون ایک نیا معیار بن سکتا ہے اور یہ سوال کہ ’انسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟‘ مزید پیچیدہ اور دلچسپ ہو گیا ہے۔














