پارلیمنٹ نے پاکستان کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے اور پہلی بار نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کو مکمل قانونی حیثیت دے دی ہے۔
حکومت نے ایک دیرینہ وعدے کو قانون کی شکل دے کر اقلیتوں کے لیے مضبوط قانونی تحفظ، مساوی شہریت اور ادارہ جاتی سہارا یقینی بنا دیا ہے۔
مزید پڑھیں: قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل میں کیا ہے اور اپوزیشن نے اس بل پر احتجاج کیوں کیا؟
یہ بل آئینی وعدے یعنی مذہبی آزادی اور انسانی وقار کو عملی شکل دیتا ہے، اور اقلیتی حقوق کو خواہش سے قابلِ نافذ نگرانی میں بدل دیتا ہے۔
پہلی بار ایک قومی ادارہ ملک بھر میں خلاف ورزیوں کی نگرانی کرے گا، امتیازی خلا کو جانچے گا اور ہر سطح کی حکومت کو اقلیتی حقوق کے نفاذ پر مجبور کرے گا۔
کمیشن اقلیتوں کو ایک خود مختار فورم مہیا کرتا ہے جہاں وہ اپنے مسائل رپورٹ کر سکیں، ازالہ مانگ سکیں اور حقوق، تحفظ اور شمولیت سے متعلق قومی پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں۔
اس قانون کی منظوری کے ساتھ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ مذہبی تنوع خطرہ نہیں بلکہ ایک قومی قوت ہے جو فعال حفاظت کی مستحق ہے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے 2014 کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے ایک ایسا ادارہ جاتی خلا پُر کیا ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موجود تھا۔
یہ قانون جبری تبدیلی مذہب، نفرت انگیز تقاریر، عبادت گاہوں پر حملوں اور دیگر خلاف ورزیوں کے حوالے سے جوابدہی کے باضابطہ میکنزم قائم کرتا ہے جن کی طرف اقلیتیں مسلسل توجہ دلاتی رہی ہیں۔
یہ قانون صوبوں میں نگرانی، شفافیت اور رپورٹنگ کو مضبوط کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق خدشات براہِ راست پارلیمنٹ تک پہنچیں۔
کمیشن کا قومی مینڈیٹ اس بات کی ضمانت ہے کہ ہر غیر مسلم برادری، چاہے بڑی ہو یا چھوٹی، اب پاکستان کے حقوقی ڈھانچے میں باقاعدہ نمائندگی رکھتی ہے۔
آج کی قانون سازی ایک مضبوط سیاسی اتفاقِ رائے کا اظہار ہے کہ پاکستان کا مستقبل مساوات، تحفظ اور قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔
حکومت کا یہ اقدام واضح پیغام دیتا ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ ایک قومی ترجیح ہے جو آئین پاکستان اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کے عین مطابق ہے۔
یہ قدم پاکستان کی عالمی ساکھ کے لیے اعتماد افزا سنگِ میل ہے جو شمولیت، سماجی ہم آہنگی اور حقوق کی ضمانتوں کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے بعد بلوچستان میں بھی منارٹی کارڈ کا اجرا، اقلیتوں کو الگ کیوں کیا جا رہا ہے؟
صوبوں اور وفاقی اداروں کو ایک مشترکہ نظام میں جوڑ کر یہ بل اقلیتوں کی فلاح اور تحفظ کے لیے ایک متحد قومی فریم ورک بناتا ہے۔
یہ قانون برداشت اور تکثیریت کے اصولوں کو ایک عملی اور قانونی نظام میں ڈھال کر سماجی ہم آہنگی کو مضبوط کرتا ہے۔














