سینیئر صحافی و کورٹ رپورٹر اسد ملک کا کہنا ہے کہ گاڑی کی ٹکر سے 2 اسکوٹی سوار لڑکیوں کی ہلاکت کے ’ذمے دار‘ لڑکے کے جج والد معاملے کے ماورائے عدالت تصفیے کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد حادثہ، جج کے کم عمر بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے 2 جوان لڑکیاں جاں بحق
یاد رہے کہ اسلام آباد میں اسکوٹی پر سوار 2 لڑکیوں کو وی ایٹ گاڑی سے کچلنے کا واقعہ پیر اور منگل کی درمیانی شب (2 دسمبر) پیش آیا تھا۔ اس حادثے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج محمد آصف کا 16 سالہ بیٹا ابوذر مبینہ طور پر ملوث ہے جو گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے چلا رہا تھا اور اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا۔
سینیئر صحافی اسد ملک نے وی ایکسکلیسیو میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حادثے کی شکار دونوں لڑکیاں دن میں کورس کرتی تھیں اور ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ پارٹ ٹائم کام بھی کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ حادثے سے قبل لڑکیوں نے کھنہ پل کے قریب کچھ ہلکا پھلکا کھایا اور ایک لڑکی اپنی سہیلی کے پاس ایک آدھ دن رہنے اس کے گھر جا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ گھر والوں نے لڑکی کو فون کیا تو ایک پولیس اہلکار نے انہیں حادثے کی اطلاع دی اور پمز اسپتال پہنچنے کے لیے کہا۔
مزید پڑھیے: اسکوٹی پر سوار لڑکیوں کو کچلنے کا واقعہ، جج کے بیٹے کا جسمانی ریمانڈ منظور
اسد ملک کے مطابق جج کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ واقعے کے وقت جج صاحب سو رہے تھے اور ان کا بیٹا گاڑی لے کر باہر چلا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہائیکورٹ کے جج کو صبح ساڑھے 8 بجے عدالت پہنچنا ہوتا ہے اس لیے وہ عام طور پر جلدی سوتے ہیں۔
قانونی پہلو اور گرفتاریاں
اسد ملک نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی کئی افواہوں کے برخلاف ملزم کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اس کیس میں قتل کی دفعہ نہیں بلکہ سیکشن 322 (قتل بالسبب) لاگو ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جان لینے کا ارادہ نہیں تھا مگر غفلت سے جان چلی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ عام طور پر یہ قابل ضمانت جرم ہے لیکن چونکہ ملزم نابالغ ہے اور اس کے پاس لائسنس نہیں تھا اس لیے کیس ناقابل ضمانت بن گیا۔
مزید پڑھیں: کم عمر بچے کی گاڑی چلاتے پرانی ویڈیو وائرل، ’کیا یہ وہی ابوذر ہے جس کی گاڑی سے 2 لڑکیاں جاں بحق ہوئیں؟‘
پولیس نے ملزم کا 4 روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے تاکہ اس کا موبائل فون برآمد کیا جاسکے جس سے کچھ تفصیل پتا چل سکے۔ ان کے مطابق کیا حادثے سے کچھ دیر قبل اس نے اسنیپ چیٹ پر ایک ویڈیو بھی اپ لوڈ کی تھی۔
سیف سٹی فوٹیج اور مصالحت کی کوششیں
اسد ملک نے مزید بتایا کہ تاحال سیف سٹی کی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی حالانکہ جائے وقوعہ پر کیمرے موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ چونکہ یہ قتل عمد نہیں ہے اس لیے عمر قید یا موت کی سزا کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیس کمپاؤنڈیبل ہے اگر متاثرہ خاندان صلح نہ کرے تو معاملہ ٹرائل تک جائے گا لیکن میرا اندازہ ہے کہ آخر میں دیت ادا ہوگی اور ضمانت بھی ہو جائے گی۔
دوستوں کی موجودگی اور موبائل فون غائب ہونے کا معاملہ
سوشل میڈیا پر یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ گاڑی میں ملزم کے دوست بھی موجود تھے جنہیں بھگا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی: پھسل کر گرنے سے ڈمپر کی زد میں آکر خاتون اسکوٹی سوار جاں بحق
اسد ملک کے مطابق یہ بات موبائل فون ملنے کی صورت میں ثابت ہو سکتی تھی لیکن موبائل فون فی الحال غائب ہے۔












