کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے تاہم اسے ابھی تک ایوان میں سادہ اکثریت نہیں مل سکی ہے۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کراچی کا میئر کون ہوگا؟
بلدیاتی انتخابات میں سرفہرست رہنے والی پیپلز پارٹی اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت اسلامی میئر کی دوڑ میں شامل ہیں جب کہ اس دوڑ میں تیسرے نمبر پر رہنے والی پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بظاہر جماعت اسلامی کا امیدوار میئر کراچی بن سکتا ہے لیکن ان اعداد شمار کی بھول بھلیوں سے پرے سیاست کا جادو ایسا ہے کہ جب تک میئر کراچی کوئی بن نہیں جاتا اس وقت تک کسی جماعت کو یقین نہیں کہ اگلا میئر کون ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق اب تک جماعت اسلامی کے 86 ارکان، پیپلز پارٹی کے 103 اور پاکستان تحریک انصاف کے 36 ارکان حلف اٹھا چکے ہیں۔
میئر کے امیدوار کو مخصوص نشستیں ملا کر 193 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے ساتھ مجموعی عددی حیثیت 210 ارکان کی بنتی ہے۔
میئر کراچی کے انتخاب سے قبل کراچی میونسپل کارپوریشن کے ایوان میں 121 مخصوص نشستوں پر پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا آج آخری دن ہے۔ مخصوص نشستوں پر انتخاب مکمل ہونے کے بعد کراچی کا بلدیاتی ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہو گا۔
کراچی میں نئے بلدیاتی ڈھانچہ کے مطابق کراچی میونسپل کارپوریشن کا ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہوگا، جس میں 246 ارکان براہ راست منتخب کیے گئے یونین کونسل چیئرمین ہیں جب کہ 121 ارکان مخصوص نشستوں پر ایوان میں پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب کیے جائیں گے۔
میئر کے انتخاب کے لیے اس وقت سب سے کڑا امتحان پاکستان تحریک انصاف کا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق ایک طرف تو ان کے 7 ارکان جیل میں ہیں تو دوسری جانب دیکھنا یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان پارٹی ہدایت پر جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دے بھی پائیں گے یا نہیں۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کی جانب سے میئر کراچی کے مضبوط امیدوار مرتضٰی وہاب کا کہنا ہے کہ ہر لحاظ سے نمبر پورے ہیں۔ کراچی والوں کو خوشخبری ملے گی، نفرت اور احتجاج کی سیاست ختم ہوگی۔ ’کام کی سیاست کا آغاز ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب بے فکر رہیں ٹینشن نہ لیں۔‘