ر ن آف الیکشن: رجب طیب اردوان نے میدان مار لیا، ترکیہ میں جشن

اتوار 28 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ترکیہ کے صدارتی انتخاب میں رجب طیب اردوان اپنے حریف کمال قلیچ دار اوغلو کو کانٹے کے مقابلے میں شکست دینے کے بعد تیسری مرتبہ کے لیے ترکی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

اتوارکو ترکیہ میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے رائے دہی کا آغاز ہوا، اس سے قبل 14 مئی کو ملک بھر میں مشترکہ پارلیمانی و صدارتی انتخابات میں صدر کے لیے کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔

اردوان نے 14 مئی کو 49.52 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے(فوٹو: بشکریہ ٹی آر ٹی)

واضح رہے اردوان نے 14 مئی کو 49.52 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ ان کے مخالف امیدوار قلیچ داراوغلو نے 44.88 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں چیئرمین سینیٹ نے ترک صدر طیب اردوان کو ’نوبل امن انعام‘ کیلئے نامزد کر دیا

رجب طیب اردوان کو رن آف الیکشن میں سب سے بڑی کامیابی اسی وقت مل گئی جب قوم پرست سینان اوغان جو صدارتی انتخابات میں تیسرے نمبر پر آئے نے ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

ترکیہ قوانین کے مطابق اگر کوئی بھی صدارتی امیدوار 50 فیصد سے کم ووٹ لے گا توالیکشن دوبارہ یعنی رن آف ووٹ کی طرف جائیں گے۔

اتوار کو ترکیہ بھر میں ملک کے صدر کے چناؤ کے لیے ووٹنگ کاآغاز صبح 8 بجے شروع ہو کر شام 7 بجے اختتام پذیر ہوا۔

انتخابات کے 14 مئی کو منعقدہ پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے جمہوری اتحاد کے امیدوار رجب طیب اردوان کا مقابلہ ملت اتحاد کے امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو سے تھا۔

بیرونی ممالک میں مقیم تقریباً 3 لاکھ 50 ہزارووٹروں کے لیے 73 ممالک میں موجود 151 نمائندہ دفاترمیں 167 بیلٹ بکس لگائے گئے تھے۔

بیرونی ممالک میں ووٹ ڈالنے کاعمل 24 مئی کو اختتام پذیر ہو نے کے بعد ووٹوں کو طیاروں اور سفارتی کوریئر کے ذریعے ترکیہ لایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں چیئرمین سینیٹ نے ترک صدر طیب اردوان کو ’نوبل امن انعام‘ کیلئے نامزد کر دیا

دارالحکومت انقرہ میں اوورسیز انتخابی کمیٹی دفتر میں محفوظ رکھے گئے ان ووٹوں کو آج ملک بھر میں رائے شماری ختم ہونے کے بعد دیگر ووٹوں کے ساتھ کھولا اور گِنا گیا۔

ترکیہ کے سرکاری میڈیا نے رجب طیب اردوان کی جیت کا اعلان کر دیا۔ شہباز شریف کی مبارکباد۔

اتوار کو رجب طیب اردوان اور قلیچ دار اوغلو کے درمیان صدارت کے لیے انتہائی کانٹے دار مقابلہ ہوا جس میں غیر حتمی نتائج کے مطابق ترکیہ رن آف الیکشن 2023 میں رجب طیب اردوان اپنےمخالف اُمیدوارکمال قلیچ دار اوغلو کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ابتدائی نتائج کے مطابق رجب طیب اردوان 52.07 فیصد ووٹ لے کر50 فیصد ووٹ حاصل کرکے کمال قلیچ داراوغلو کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

نتائج کے مطابق اس وقت رجب طیب اردوان کے حریف کمال قلیچ داراوغلو 47.93 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

رجب طیب اردوان نے اس وقت تک 27.4 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ کمال قلیچ دار اوغلو نے 25.2 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل  کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ترکیہ کے انتخابات میں 53 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا جبکہ ٹرن آؤٹ 99.37 فیصد رہا۔

ترکیہ کے سرکاری میڈیا نے رجب طیب اردوان کی جیت کا اعلان کر دیا ہے۔ جب کہ صدر رجب طیب اردوان نے بھی مختصر پیغام میں اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ ترکیہ عوام ’ میں آپ کا شکر گزار ہوں، آپ نے ترکیہ کی تیسری مرتبہ ترقی کے نظریہ کو ووٹ دیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں ترکیہ صدارتی انتخابات: اپوزیشن امیدوار کی مقبولیت صدر اردوان سے 10فیصد زیادہ، عرب نیوز

تاہم ترکیہ کے سرکاری سپریم الیکشن کونسل نے ابھی تک رجب طیب اردوان کی حتمی جیت کا اعلان نہیں کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی رجب طیب اردوان کو جیت پر مبارکباد

دوسری جانب وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف نے رجب طیب اردوان کو تیسری مرتبہ ترکیہ کا صدر بننے پر مبارک باد دی ہے ۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک تہنیتی پیغام میں شہباز شریف نے کہا کہ  میں پیارے بھائی رجب طیب اردوان کو دل کی گہرائیوں سے جیت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوان ان چند عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کی سیاست عوامی خدمت میں سب سے آگے ہے۔ طیب اردوان مظلوم مسلمانوں کے لیے طاقت کا ستون اوران کے ناقابل تنسیخ حقوق کے لیے ایک توانا آواز رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ان کی اور ان کی جماعت کی کامیابی انتہائی اہم ہے۔ یہ کامیابی ان کی متحرک قیادت پر ترک عوام کے اعتماد کی عکاس ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید مضبوطی کی جانب گامزن رہیں گے۔ میں پاکستان اور ترکیہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بہترین بھائی چارے اور اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے رجب طیب اردوان کے ساتھ مل کرکام کرنے کا شدت سے منتظر ہوں۔

طیب اردوان کی قیادت میں اکتوبر میں جمہوریہ ترکیہ کی گولڈن جوبلی منائی جائے گی۔

طیب اردوان کی قیادت میں اکتوبر میں جمہوریہ ترکیہ کی گولڈن جوبلی منائی جائے گی

اتوار کے الیکشن میں جیت کا مطلب یہ ہے کہ 69 سالہ اردوان اپنی 20 سالہ حکمرانی کو مزید پانچ سال تک بڑھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اکتوبر میں جب جمہوریہ ترکیہ کی گولڈن جوبلی یعنی سو سال( ایک صدی) مکمل ہو گی تو اس وقت ترکیہ کی قیادت عوام کی محبتوں سے رجب طیب اردوان کر رہے ہوں گے۔

رجب طیب اردوان کی اے کے پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے 14 مئی کو ہونے والے بیک وقت انتخابات میں 600 کے پارلیمنٹ میں 323 نشستیں حاصل کر کے وہاں بھی اکثریت حاصل کر لی تھی۔

واضح رہے کہ اردوان نے فروری میں تباہ کن زلزلوں سے متاثرہ علاقوں میں توقع سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میں ملک میں 50 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

ہم اپنی پالیسیوں سے عوام کے اعتماد کو مزید مستحکم کریں گے: رجب طیب اردوان

ادھر رجب طیب اردوان نے ترکیہ کے رن آف الیکشن میں کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی قوم کے حق میں صدارتی انتخابات کا دوسرا دور مکمل کر لیا ہے۔

انہوں نے استنبول میں اپنے آبائی ضلع میں ایک بس کے اوپر سے اپنے حامیوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم آنے والے 5 سالوں تک ملک پر حکومت کریں گے۔ انشا اللہ ہم اپنی پالیسیوں سے آپ کے اعتماد کومزید مستحکم کریں گے۔

طیب اردوان حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے کانٹا بن کر ابھرے ہیں، انہوں نے اپنی زبردست پالیسیوں کے تحت ترکیہ کے نظام کو ہی بدل کررکھ دیا۔ 3 بار صدارتی انتخابات جیتنے والے طیب اردوان کو اس وقت ترکیہ میں کامیاب ترین سیاستدان قرار دیا جا رہا ہے۔

طیب اردوان ایک تھکا دینے والی مہم کے دوران اکثر ایک دن میں متعدد ریلیوں سے خطاب کرتے تھے۔ وہ ’ترکیہ‘ میں اپنے 20 سالہ دورِ حکومت میں ہونے والی ترقی کو اجاگر کرتے اور ساتھ ہی ساتھ حزبِ اختلاف پر ’دہشت گردی‘ کی حمایت کرنے یا مغرب کے غلام ہونے کی تنقید بھی کرتے رہے۔

ہم اپنی پالیسیوں سے عوام کے اعتماد کو مزید مستحکم کریں گے: رجب طیب اردوان

ادھر طیب اردوان کے الیکنش میں کامیابی کے بعد تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان کے لیے آئندہ پانچ سال حکومت کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہوگا اس لیے کہ انہیں انتخابات میں شدید ترین مقابلے کا سامنا رہا ہے۔

البرائٹ سٹون برج گروپ کے سینئر ایڈوائزر ہاکان اکاباس کا کہنا ہے کہ اپنی جیت کے بعد اردوان کو ہو سکتا ہے کہ ‘زیادہ محتاط‘ رہنا پڑے گا کیوں کہ اردوان کی جیت میں کے مارجن میں اتنا بڑا فرق نہیں ہے جتنا ان کی ’اے کے‘ پارٹی توقع کر رہی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی پولرائزڈ ملک ہے – تقریباً 50/50 (فتح کا مارجن) 52-48 ہے اس لیے اردوان کو اتنا ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔

آئین میں تبدیلیوں کے لیے اردوان کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ہوگی: مبصرین

اتنے کم مارجن سے جیتنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں تبدیلیوں کے لیے رجب طیب اردوان کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کرنے کی ضرورت ہوگی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوان کے ووٹ بینک میں 2018 کی نسبت کمی آئی ہے، عوام نے انہیں اس طرح مینڈیٹ نہیں دیا جس طرح انہیں 2018 میں ملا تھا اس کی بنیادی وجہ ملک کی معیشت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے ہو سکتا ہے کہ طیب اردوان کو ملک میں سخت گیر پالیسیوں کی جانب دوبارہ لوٹنا پڑے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ طیب اردوان کو دوبارہ شرح سود میں اضافے پرغور کرنا پڑسکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp