ترک صدارتی انتخابات: اردوان کی برتری لیکن حتمی اکثریت سے دور

اتوار 14 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں موجودہ صدر رجب طیب اردوان اور کمال قلیچداروغلو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ جاری ہے۔ اب تک کے نتائج کے مطابق رجب طیب اردوان 49 اعشاریہ 35 فیصد ووٹ لے کر سر فہرست جب کہ کمال قلیچداراوغلو 45 فیصد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر ہیں۔

ترک میڈیا کے مطابق 98 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے، صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردوان 49 اعشاریہ 35 فیصد ووٹ لیکر آگے ہیں، ان کے مخالف امیدوار کمال قلیچدار اوغلو 45 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، سنان اوغان 5 اعشاریہ 22 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر ہیں۔

گنتی مکمل ہونے کے بعد کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو انتخابات دوسرے مرحلے میں دوبارہ ہوں گے۔

بشکریہ ٹی آرٹی ورلڈ

 ترکیہ کے سپریم الیکٹورل بورڈ کے مطابق کسی بھی امیدوار کو صدر بننے کے لیے 50 فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکے تو انتخابات کا فیصلہ ممکنہ طور پر 28 مئی کو منعقد ہونیوالے دوسرے مرحلے میں ہوگا۔

دوسری جانب پارلیمانی انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق رجب طیب اردوان کی قومی اتحاد پارٹی 266 نشستیں حاصل کر چکی ہے جبکہ انکے مخالف کمال قلیچداروغلو کی پیپلز اتحاد پارٹی 212 نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر ہے۔

واضح رہے رجب طیب اردوان اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ قومی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کو ہے۔ کانٹے دار مقابلہ جاری ہے تاہم وہ پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی صورت میں قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے اور دوسرے مرحلے کے لیے میدان میں اترنے کو تیار ہوں گے۔

ترکیہ کی بگڑتی معشیت کے پیش نظر 20 سال سے نا قابل شکست طیب اردوان کو اس وقت شدید ترین مذمت کا سامنا ہے۔ انہیں نہ صرف اندرونی طور پر شدید مخالفت کا سامنا ہے بلکہ ان کی شکست کے لیے بیرونی طور پر بھی کوششیں جاری ہیں۔

انتخابی عمل کے آغاز سے قبل ترک صدر طیب اردوان نے اپنے خلاف شائع ہونے والے تبصروں، مضامین اور اشتہارات کی اشاعت پر عالمی ذرائع ابلاغ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ کی تقدیر کا فیصلہ ترک قوم کرے گی نا کہ مغرب یا مغربی میڈیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ پر باقاعدہ ایک مہم شروع کی گئی تھی۔

برطانوی میگزین دی اکنامسٹ نے اپنے حالیہ سرورق پر طیب اردوان کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا تھا: ووٹ دو ‘جمہوریت بچاؤ’، اردوان‘ کو اب جانا چاہیے۔

اسی طرح جرمنی، فرانس اور انگلینڈ کے نامور رسائل اور اخبارات اپنے سرورق پر طیب اردوان کی تصویر کے ساتھ ان کے خلاف تبصرے لکھتے رہے ہیں۔

مغربی مخالفت

طیب اردوان نے انتخابات کے لیے پولنگ شروع ہونے سے قبل استنبول میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ نے میرے خلاف یہ الفاظ ان میگزین کے سرورق پر کیوں لکھے ہیں؟ یہ آپ نہیں بلکہ مغرب ہے! آپ کون ہوتے ہیں؟ اس کا فیصلہ میری قوم کرے گی۔

فرانسیسی میگزین ’لی پوائنٹ‘ اور ’لی ایکسپریس‘ میں بھی اردوان مخالف سرورق پر تبصرے شائع کیے ہیں۔ طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کر لیں، جتنی رائے عامہ ہموار کر لیں میری قوم کو ورغلا نہیں سکتے۔

یہ بھی پڑھیں:ترکیہ صدارتی انتخابات: کیا رجب طیب اردگان شکست کھا جائیں گے؟

کمال قلیچدار اوغلو کا الزام

اردوان نے کمال قلیچدار اوغلو کے ان دعوؤں پر بھی شدید تنقید کی کہ روس انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ کمال قلیچدار اوغلو  نے الزام لگایا تھا کہ روس ترکیہ کے انتخابات میں جوڑ توڑ کر رہا ہے۔

طیب اردوان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ’شرم کرو! اگر میں یہ کہوں کہ امریکا ترکیہ کے انتخابات میں جوڑ توڑ کر رہا ہے، جرمنی اس میں جوڑ توڑ کر رہا ہے، فرانس اس میں جوڑ توڑ کر رہا ہے، انگلینڈ اس میں جوڑ توڑ کر رہا ہے، تو کمال قلیچدار اوغلو آپ کیا کہیں گے؟’

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp