پاکستان کی کل جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً انیس فیصد ہے اور ملک کی آدھی آبادی کا بلا واسطہ روز گار زراعت کے شعبے سے جڑا ہے۔ پھر کیا بات ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی یہاں کا کسان بے حال ہے اور ہم اربوں ڈالر کی زرعی اجناس در آمد کرتے ہیں، جس پر قیمتی زر مبادلہ صرف ہوتا ہے۔
پاکستان دنیا میں گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ دو ہزار بائیس میں پاکستان کی گندم کی پیداوار یوکرین سے زیادہ تھی اور لمحہ فکریہ ہے کہ اُسی سال ہمیں یوکرین اور روس سے گندم در آمد کرنا پڑی۔ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات، افغانستان اور وسط ایشیاء تک پھیلا ہوا لاکھوں ٹن گندم کی سمگلنگ کا نیٹ ورک، ملکی غذائی وسائل پر بوجھ ہے۔
گزشتہ دو سال سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کا ہوا ہے۔ بے وقت کی بارشوں ، سیلابوں اور ماحولیاتی اثرات کی ستم ظریفی کا ستایا ہوا کسان ویسے ہی بد حال ہے جب کہ، رہی سہی کسر حکومت کھاد، تیل اور بجلی کے نرخ میں بے پناہ اضافہ کر کے پورا کر دیتی ہے۔
کہنے کو تو ملک میں پچھلے پندرہ سال سے جمہوریت ہے، پر ان پندرہ سالوں میں کسی حکومت نے زراعت اور کسان کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔
پوری دنیا میں حکومتیں کسانوں کو سبسڈی دیتی ہیں تا کہ زرعی پیدا وار کسان کے لیے منافع بخش رہے۔ یہاں کہنے کو ویسے تو ہم ایک زرعی ملک ہیں مگر پچھلے پچھتر سال سے یہ سیکٹر سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے۔ ملک میں کھاد، تیل، بجلی کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ فی ایکڑ کاشت کی لاگت اور آمدن میں عدم توازن کے باعث دیہی سماج میں بھی غربت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
زراعت کی معیشت کو نقصان ہاؤسنگ سوسائٹیز نے بھی بہت پہنچایا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہاؤسنگ سوسائٹیز سے کم ہوتے زرعی رقبے اور بڑھتی آبادی کا شاید ہی کسی کو احساس ہے۔
لاہور شہر کا سارا پھیلاؤ زرعی زمینوں پہ ہوا ہے، جس میں چالیس فیصد تو ڈی ایچ اے اور باقی تیس فیصد دیگر رہائشی کالونیوں کا حصہ ہے۔ چھوٹے شہروں ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ میں بھی دھڑا دھڑ زرعی زمین پہ ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔ کسان کو جتنی قیمت سوسائٹی والے آفر کرتے ہیں، اتنے وہ اگلے پندرہ سالوں میں بھی فصل سے نہیں کما سکتا۔
ایک اہم وجہ مراعات یافتہ طبقوں میں بڑھتا ہوا فارم ہاؤس کلچر ہے۔ صرف اسلام آباد کی ہی بات کی جائے تو شہر کے منصوبہ سازوں نے مضافات کی زرعی اراضی سستے داموں اس امید کے ساتھ الاٹ کی کہ یہاں بسنے والے سبزیوں ، پھلوں کی کاشت اور پولٹری فارمنگ کے ذریعے شہر کے باسیوں کی غذائی ضروریات کو پورا کریں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان فارم ہاؤسز میں رہنا ایک سٹیٹس سمبل بنتا چلا گیا اور آج یہ جگہیں اپنے اصل مقصد کے علاوہ ہر کام کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
اسی طرح بڑے شہروں کے مضافات میں واقع زرعی زمینیں با اثر خاندانوں کی رہائش کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس سے مجموعی زرعی پیدا وار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سندھ اور پنجاب میں جہاں کپاس کی فصل کا علاقہ زیادہ تھا وہاں شوگر فیکٹریاں لگا کر گنے کی فصل کو بڑھاوا دیا گیا، جس سے ایک مخصوص شبعے کو فائدہ تو ہوا، مگر ساتھ ہی کپاس کے علاوہ گندم اور دیگر زرعی اجناس کی کاشت کم ہو گئی اور اربوں ڈالر کی کاٹن گذشتہ سالوں میں در آمد کرنا پڑی۔ گنے کی فصل پہ کھیتوں سے شوگر مل تک کسان کا استحصال ہوتا ہے اور مناسب قیمت نہیں ملتی۔ دوسری طرف غذائی اجناس کی پیدا وار کم منافع کی شرح سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف ہمارے کسان اب بھی روایتی طریقہ کاشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ کاشت اور آب پوشی کے فرسودہ طریقوں کی وجہ سے بیج ، کھاد اور پانی کا خرچ کئی گنا بڑھ جاتا ہے لیکن فی ایکڑ فصل کی پیدا وار باقی دنیا کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی ہے۔
جدید ذرائع کاشت ایک تو مہنگے ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی پہنچ سے باہر ہیں، دوسرا ان کے استعمال اور افادیت کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں جو چند ایکڑ رقبہ کاشت کرنے والے نا خواندہ کاشت کاروں کو ان ذرائع کے استعمال سے بد ظن کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ محکمہ زراعت اپنے حصے کا کام کر ہی رہا ہے لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے ۔
کسان اور زراعت نہ صرف ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں بلکہ ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے ضامن بھی ہیں۔ یہی وقت ہے کہ اس شعبے پر مکمل توجہ دی جائے کہ اس کے بغیر معاشی خود کفالت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کسان کو سستی بجلی، کھاد، تیل مہیا کریں تا کہ کاشت کی لاگت کم آئے اور منڈی میں وہ مناسب منافع کما سکے اور ملکی پیداوار میں بھی اضافہ ہو ۔