آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں عالمی یوم بحر منایا جارہا ہے اس وقت دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نایاب سمندری حیات کو اپنی بقا کو لاحق خطرات کا سامنا ہے۔ دنیا میں ہر ایک منٹ پر ایک بھرے ہوئے ٹرک جتنا کچرا سمندر کی نذر ہورہا ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق بڑھتی ہوئی آلودگی خصوصاً سمندری آلودگی کے باعث دنیا میں ہر سال 10 لاکھ کے قریب نادر و نایاب سمندری حیات معدوم ہو رہی ہے۔ اس پس منظر میں عالمی یوم بحر کا مقصد سمندر اور آبی حیات کے لیے محفوط ماحول فراہم کرنا اور اس سے متعلق عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔
2008 میں اقوام متحدہ نے آبی حیات کو لاحق خطرات کے پیش نظر سمندر کے عالمی دن کو تسلیم کیا جس کے بعد ہر سال 8 جون کو عالمی یوم بحر کے موقع پر اس کی اہمیت کواجاگر کرتے ہیں۔
دنیا میں پلاسٹک کی پیداوار 400 ملین ٹن سالانہ ہے، جس کے کچرے میں سے 10 فیصد کو تو دوبارہ قابلِ استعمال بنا لیا جاتا ہے لیکن باقی 90 فیصد کچرا گلی کوچوں میں ہی موجود رہتا ہے یا پھر ندی، نالوں، اور سیوریج لائنز سے ہوتا ہوا سمندروں کا رخ کرتا ہے۔
ماہر ماحولیات محمود عالم خالد کا کہنا ہے کہ ہم ایک منٹ میں ایک ٹرک جتنا کچرا سمندر میں ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اسی تناسب سے کچرا سمندر میں جاتا رہا تو 2050 تک سمندر میں آبی حیات سے زیادہ کچرا جمع ہو جائے گا۔
’ہم ساحلی شہر کے رہائشی ہیں اور ہمارے ساحلوں پر آلودگی انتہا تک پہنچ چکی ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ساحل سے پندرہ کلومیٹر تک آبی حیات نہیں ہے وہ گہرے سمندر میں جاچکی ہے اور مچھیروں کو شکار کرنے گہرے سمندر کی طرف جانا پڑتا ہے۔‘
محمود عالم کا کہنا تھا کہ ماحول مخالف سب سے خوفناک کام کراچی میں یہ ہوا ہے کہ یہاں سمندر کو پیچھے دھکیل کر زمین حاصل کی گئی ہے، جہاں جنگی بنیادوں پر تعمیرات کے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔
’آج سمندری طوفان پاکستان کے ساحل سے نہیں ٹکراتے لیکن صورت حال یہی رہی تو ہمارے ساحل اور اس پر موجود آبادی ممکنہ طوفان کے باعث تباہ ہو جائے گی اس وقت کروڑوں افراد ان خطرات کے دہانے پر کھڑے ہیں۔‘
ماہر ماحولیات محمود عالم خالد کے مطابق سمندر دوست ماحول بنانے کی جانب پیش قدمی نہ کی گئی تو انسانی حیات بحیثیت مجموعی ایک بہت بڑے خطرے دوچار ہوگی جو براہ راست انسانی بقا سے وابستہ ہے۔
درس و تدریس سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق محمود عالم سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں حالیہ طوفان سے 50 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوئے ہیں اور بحیرہ عرب میں آج بھی ترتیب پانیوالے کیٹگری 2 کے ایک ممکنہ طوفان کے خطرے سے کراچی سمیت دیگر ساحلی علاقے متاثر ہوسکتے ہیں۔
’سمندری آلودگی اور موسمیاتی تغیر کے باعث سمندری سطح اور درجہ حرارت میں اضافہ جیسے مسائل اور اس سے آبی حیات کو لاحق خطرات اپنی جگہ لیکن سر دست سوال یہ ہے کہ سمندری مدو جزر میں تبدیلی کے باعث طوفان کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہماری کیا تیاری ہے۔‘