پاکستان آٹو مینیوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (پاما) کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2023 کے ابتدائی 4 ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 59 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیوں کے مطابق لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہ کھلنے اور آٹو پارٹس درآمد نہ ہوسکنے کے باعث انہیں کچھ عرصے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں پاکستان میں کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہیں لیکن پھر بھی لوکل مینیوفیکچرنگ کیوں شروع نہیں کرپا رہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں تب تک اسی طرح رہیں گی جب تک یہاں گاڑیاں بننی نہیں شروع ہو جاتیں کیوں کہ ہمارے ہاں جتنی بھی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ہیں وہ گاڑیوں کی پروڈکشن کی جانب آنا نہیں چاہتیں۔
کمپنیوں کی جانب سے پروڈکشن نہ شروع کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ سوزوکی کو پاکستان میں تقریباً 40 سال جب کہ ہونڈا اور ٹویوٹا کو 30 برس ہو چکے ہیں لیکن ان کمپنیوں نے آج تک لوکل پروڈکشن کے بارے میں اس لیے نہیں سوچا کیوں کہ یہ عوام کا نہیں اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔
ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں صرف باہر سے گاڑیوں کے پرزے درآمد کر کے جوڑنے تک محدود ہو چکی ہیں جس میں انہیں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بلیک مارکیٹنگ کے تحت اپنی گاڑیاں فروخت کر رہی ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے یہ لوگ عوام سے بکنگ کی قیمت وصول کرتے ہیں اور وہ پیسہ بینک کو انٹریسٹ ریٹ پر دے دیتے ہیں جس کے بعد گاڑی خریدار کے حوالے کرنے تک کا سفر اتنا طویل ہوتا ہے کہ اگر اس کے درمیان گاڑی کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس کی وصولی بھی کر لی جاتی ہے۔
گاڑیوں کے معیار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستانی گاڑیاں پائیداری اور سیفٹی فیچرز کے لحاظ سے بلکل بھی معیاری نہیں ہوتیں جس کے باعث زیادہ تر لوگ پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کو پاکستانی گاڑیوں پر فوقیت دیتے ہیں۔
ایم شہزاد نے کہا کہ ’اگر آپ پرانی جاپانی موٹر کار کا موازنہ نئی پاکستانی کار سے کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آٹو انڈسٹری کتنی پیچھے ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپانی گاڑی کو دیکھتے ہی اس کی پائیداری کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
انہوں نے تجویز کیا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام کمپنیوں کے لیے ایک مخصوص مدت کا تعین کرتے ہوئے یہ واضح کردے کہ اگر کمپنیاں اس متعین شدہ وقت تک پروڈکشن شروع نہیں کرتیں تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے سخت پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور وہ پالیسیاں نہ صرف گاڑیوں کی پروڈکشن بلکہ ان کی پائیداری کو بھی یقینی بنائیں تاکہ خریدار بھی بخوشی گاڑی خریدے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر ان چیزوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔