شطرنج کھیل ہے اپنے بادشاہ کو بچانے اور مخالف بادشاہ کو گرانے کا۔ بساط پر تمام مہرے چاروں جانب دوڑائے جاتے ہیں جس کا واحد ہدف اپنے بادشاہ کی حفاظت اور مخالف بادشاہ کو گرانا ہوتا ہے۔
چیک میٹ شطرنج کی اصطلاح میں اعلان فتح ہوتا ہے یعنی اب مخالف بادشاہ کو اس طرح گھیرے میں لیا جاچکا ہے کہ اس کا بچنا ممکن نہیں رہا۔ جب بادشاہ کے بچ جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا تو گیم ختم،چیک میٹ سے ایک قدم پیچھے کی اصطلاح کو چیک کہا جاتا ہے یہ وارننگ ہوتی ہے کہ بادشاہ گھیرے میں آچکا ہے بچا سکتے ہو تو بچا لو۔
یعنی بادشاہ جب کسی مخالف مہرے کی زد میں آجائے اسے چیک کہا جاتا ہے یہاں اگلی چال میں موقع ہوتا ہے کہ کوئی اپنا مہرہ بادشاہ کے آگے آجائے اور اسے بچا لے یا بادشاہ اپنی جگہ تبدیل کر کے مخالف مہرے کی مار سے بچ جائے۔
سیاسی بساط بھی شطرنج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں آٹھ مارچ 2022 کو اپوزیشن ایک تحریک عدم اعتماد لاکر عمران خان کوچیک پر لے آئی، ان کے پاس موقع تھا کہ وہ چیک میٹ سے بچ سکیں لیکن پھر ان کے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر اپوزیشن نے انہیں چیک میٹ کردیا جہاں کھیل ختم ہو گیا۔ لیکن خان صاحب نے زور زبردستی سے کھیل کو کسی نہ کسی طرح بچانے کی کوشش کی کسی معجزے کے انتظار میں رہے جو نہ ہوا اور اپوزیشن نے چیک میٹ نہ ماننے پر انہیں اٹھا کر باہر پھینکا اور خود ان کا کھیل ختم کردیا۔
سیاسی شطرنج،چیس بورڈ پر کھیلی جانیوالی شطرنج سے زیادہ پیچیدہ ہے چیس بورڈ پرسب کچھ سب کے سامنے ہورہا ہوتا ہے کونسا مہرہ کس مقصد کے لئے کہاں کھڑا کیا گیا ہے کونسی ممکنہ چالیں چلی جانی ہیں سب کچھ سامنے ہوتا ہے سب سے بڑھ کر یہ علم ہوتا ہےکہ کونسا مہرہ اپنا اور کونسا مخالف ٹیم کا ہے سیاسی شطرنج میں اکثر ایسی باتوں کا اندازہ تب ہوتا ہے جب بازی پلٹ چکی ہوتی ہے۔اور خاص طور پر اس بات کا کہ بادشاہ کو بچانے کے لئے سامنے کھڑا مہرہ واقعی اپنا ہے یا اچانک پلٹ کر وار کرسکتا ہے یا پھر اچانک جگہ بدل کر ادھر ادھر ہوجائے گا۔
یہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ اور ہوتا ہے، جو کہا جاتا ہے اکثر ویسا ہوتا نہیں ،جو بالکل سادہ لگتا ہے وہ اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا ۔جب عمران خان کو نکالنے کے بعد سابقہ اپوزیشن اتحادی میدان میں آئے تو انہیں اس بات کا اندازہ ہوا جس کا پہلے اندازہ ہی نہیں تھا یعنی معاشی صورتحال کا، پہلے تو سوچا گیا کہ کوئی ضرورت نہیں تمام ذمہ داری اپنے سر لینے کی عمران کو ہٹانا تھا ہٹا دیا اب الیکشن کرائیں اور پانچ سال کے لئے آئیں، پھر کسی نے سمجھایا ایسے جانا بھی فائدہ مند نہیں ہوگا گلے پڑا ڈھول بجائیں اور اچھے کی امید لگائیں ۔
مشکل حالات اور مشکل فیصلوں نے درجن بھر جماعتوں کے حکومتی اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا۔پنجاب میں حکومت ملی لیکن عدالتی فیصلے کی سہولت اور ضمنی انتخاب میں اپ سیٹ کامیابی نے حکومتی اتحاد کو چیک پر لاکھڑا کیا۔ اور بڑا صوبہ ہاتھ سے جانے کے بعد مرکز بچانا چیلنج بن گیا۔ خان صاحب نے یہ چیک خود ہی ختم کردیا جب انہوں نے اپنی ہی صوبائی حکومتیں ختم کر ڈالیں۔اور پی ڈی ایم والوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے ڈالا اور وہ بھی کھل کر کھیلے۔ اور ایسا کھیلے کے خان صاحب کو جارحانہ موڈ میں لاکر نو مئی والی بڑی غلطی کرڈلی۔
عمران خان خود ہی چیک میٹ ہوگئے۔ چیک میٹ بھی ایسا جہاں کھیل بالکل ختم، کوئی مہرہ بھی بادشاہ کو بچانے کے لئے سامنے نہ آسکا۔بلکہ بارشادہ کو چیک میٹ ہوتا دیکھ کر خود ہی گرتے چلے گئے۔ عمران خان کو پہلے چیک میٹ نے حکومت سے باہر کیا۔یہاں ان کی کئی غلطیاں یقینا تھیں جنہوں نے مخالفین کو انہیں چیک میٹ کرنے کا موقع فراہم کیا لیکن مخالفین نے بھی بہتر حکمت عملی دکھائی اور متحد ہوکر کامیابی سمیٹی ، دوسرے چیک میٹ کا سہرہ مکمل طور پر عمران خان کے اپنے سر جاتا ہے۔انہوں نے اپنی حکومت کا کھیل ختم ہوجانے کے بعد پے در پے جو غلطیاں کیں اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ان کی مخالفین کو برداشت نہ کرنے اور اقتدار دوبارہ حاصل کرلینے کی جلدی تھی۔
یقین جانیں اگر خان صاحب ایک سال تحمل سے گزار لیتے تو ملک میں مہنگائی کی لہرانتخابات میں ان کے مخالفین کو چیک میٹ کردیتی لیکن خان صاحب کی عدم برداشت نے انہیں دو سال کے دوران نہ صرف دوسری بار چیک میٹ کردیا بلکہ اس بار ایسا چیک میٹ کہ سیاست بھی ہاتھ سے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔