بھارت کے مختلف ریاستیں گرمی کی شدید لہر سے دوچار ہیں تاہم دو گنجان آباد ریاستوں میں صورتحال نے میڈیکل ایمرجنسی کی صورت اختیار کرلی ہے، جہاں گزشتہ چند روز کے دوران کم از کم 100 افراد گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ ہلاکتیں شمالی ریاست اتر پردیش اور مشرقی ریاست بہار میں رپورٹ ہوئی ہیں، جہاں حکام نے 60 سال سے زائد عمر کے رہائشیوں اور دیگر مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو دن کے وقت گھر سے باہر نہ نکلنے کی تنبیہ کی ہے۔
اتر پردیش میں مجموعی طور پر 54 ہلاکتیں ضلع بلیا میں ہوئیں، جو ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ سے تقریباً 300 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ حکام کے مطابق بیشتر مرنے والوں کی عمر 60 سال سے زائد تھی اور جن کی صحت پہلے سے روبہ زوال تھی۔ جسے شدید گرمی نے مزید بگاڑ دیا۔
بلیا کے ایک میڈیکل آفیسر ایس کے یادیو نے کہا کہ گزشتہ تین دنوں میں، تقریباً 300 مریضوں کو شدید گرمی کے باعث بڑھنے والی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر حکام نے بلیا میں طبی عملے کی چھٹیوں کی درخواستیں منسوخ کر تے ہوئے مریضوں کی بڑھتی ہوئی آمد سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی وارڈ میں ہسپتال کے اضافی بستر فراہم کر دیے ہیں۔
طبی حکام کے مطابق ہسپتال میں داخل ہونے والے بیشتر مریض 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں، جن میں تیز بخار، الٹی، اسہال، سانس لینے میں دشواری اور دل سے متعلق مسائل کی علامات نمایاں تھیں۔
ہفتے کے روز اپنے والد کی موت کے صدمہ سے دوچار بلیا کے رہائشی آر ایس پاٹھک کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں اپنے والد کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کے بڑھتے رش کا مشاہدہ کیا۔
54 deaths in UP, 42 in Bihar in 3 days as heatwave sweeps north & east India
The deaths in UP prompted authorities to warn senior citizens and others suffering from various health conditions to stay indoors during daytime.https://t.co/AJGqS8Q38R
— The Times Of India (@timesofindia) June 19, 2023
’بلیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ میں نے اتنی بڑی تعداد میں گرمی کی وجہ سے لوگوں کو مرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ لوگ باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ سڑکیں اور بازار زیادہ تر سنسان ہیں۔‘
وسطی اور مشرقی اتر پردیش کی طرح ضلع بلیا اس وقت گرمی کی ظالمانہ لہر سے دوچار ہے، جہاں گزشتہ روز زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا، جو معمول کی حد سے پانچ ڈگری زیادہ تھا۔ دوسری جانب ہوا میں نمی کا تناسب 25 فیصد ریکارڈ کیا گیا جس سے گرمی کے اثر میں شدت آئی۔
انڈیا میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ سائنسدان اتل کمار سنگھ کے مطابق ریاست بھر میں درجہ حرارت اس وقت معمول سے زیادہ ہے، جس میں اگلے 24 گھنٹوں میں کسی ریلیف کی توقع نہیں ہے۔
انڈیا میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتر پردیش کے کچھ حصوں میں گرمی کی لہر 19 جون تک برقرار رہے گی۔ دوسری جانب ریاستی وزیر صحت برجیش پاٹھک نے ضلع بلیا میں اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کا اعلان بھی کیا ہے۔
شدید گرمی نے مشرقی ریاست بہار کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دو دنوں میں 42 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریباً 35 ہلاکتیں ریاستی دارالحکومت پٹنہ کے دو ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئی ہیں، جہاں اسہال اور قے سے متاثرہ 200 سے زیادہ مریض زیر علاج تھے۔
پٹنہ میں ہفتہ کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 44.7 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ موسم گرما کے اہم مہینے — اپریل، مئی اور جون — عام طور پر بھارت کے بیشتر حصوں میں سب سے زیادہ گرم ہوتے ہیں، تاوقتیکہ مون سون کی بارشیں درجہ حرارت کو معتدل سطح پر لے آئیں۔
لیکن گزشتہ ایک عشرے کے دوران درجہ حرارت زیادہ شدید ہو گیا ہے۔ گرمی کی لہروں کے دوران، ملک کو عام طور پر پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں 1 ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سے بیشتر کو پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
انتہائی شدید نوعیت کی گرمی کے ماخذ کی تحقیق میں مشغول ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی ایک تحقیق کے مطابق پتہ چلا ہے کہ رواں برس اپریل میں شدید گرمی کی لہر جس نے جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں کو متاثر کیا تھا، موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما گرمی کی شدت سے کم از کم 30 گنا زیادہ تھی۔
بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں اسی اپریل میں ایک سرکاری تقریب میں گرمی کی وجہ سے 13 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس نےکچھ ریاستوں کو ایک ہفتے کے لیے تمام اسکول بند کرنے پر مجبور کردیا تھا۔