اسلام آباد میں ’بلوچستان میں ترقی‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جن سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان کے تمام قرضوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
منگل کو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹوٹ کے زیراہتمام منعقد ہونے والے سیمینار میں مقررین نے صوبے کے مسائل اور ان کے حل پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ صوبے میں اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور مشترکہ طبقاتی روابط کو بحال کرنا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کو محض جغرافیہ، وسائل اور معدنیات کی تصویر کشی تک محدود کرنے کی بجائے اسٹیک ہولڈرز کو صوبے کی آواز سننی ہوگی اور ملک کو یہاں کے عوام کے حقیقی مسائل سے بھی آگاہ کرنا ہوگا۔
جام کمال نے کہا کہ جو چیز بلوچستان کو پاکستان کے باقی صوبوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی انتہائی پسماندگی ہے اور بلوچستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگوں میں وسائل اور سہولیات کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک عام بلوچ بھی نہیں بلکہ وہاں کا ایک امیر شخص بھی بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر منصوبے کو تقریبا 30 برس ہونے والے ہیں مگر آج تک وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’آپ بلوچستان جا کر کسی سے بھی بات کریں تو آپ کو لگے گا کہ آپ کسی اور صدی میں چلے گئے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ اس ترقی کے دور میں اس صوبے کو وہ سہولیات مہیا نہیں کی جا رہیں جو کی جانی چاہیے تھیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 50 سال میں بلوچستان میں کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں بنایا جاسکا جس کی وجہ سے صوبے میں ایسی کوئی چیز نہیں جو لوگوں کو وہاں جانے کی پر راغب کرے۔
بلوچستان کی خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے ڈیفنس پروڈکشن زبیدہ جلال خان کا کہنا تھا کہ 75 فی صد بلوچ آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے جنہیں بے روزگاری اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ روزگار اور ترقی کے مواقع کی کمی کی وجہ سے نوجوان تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
زبیدہ جلال کا مزید کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد بھی صوبے کو کوئی خود مختاری نہیں مل سکی اور نہ ہی ترقی میں کوئی بڑا حصہ ملک سکا جو کہ ایک افسوسناک امر ہے۔
انہوں نے خواتین فیلو پروگرام کے قیام پر بھی زور دیا تاکہ خواتین کو خود مختار بنایا جا سکے اور وہ آگے بڑھ سکیں۔
بلوچستان اسمبلی کے رکن ثناء اللہ بلوچ نے گلوبل ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی رینکنگ 0.463 پر ہے اور اسے افغانستان، سیرالیون اور یمن سے نیچے رکھا گیا ہے۔
ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ سنہ 2019 میں بلوچستان 189 ممالک میں 181 ویں نمبر پر تھا، صوبے میں ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔
عدادوشمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی آبادی کا 6.2 فیصد بستا ہے اور اس کا سماجی تحفظ کا انڈیکس 2.1 فیصد ہے، اندرون ملک ترسیلات ایک فیصد سے کم، اجرت اور تنخواہیں 6 فیصد، گھریلو آمدنی 4.2 فیصد اور غیر ملکی ترسیلات 0.7 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیگر مقررین نے بلوچستان کے مسائل اور ترقی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت بلوچستان میں غربت کی سطح بہت زیادہ ہے جس کا سبب یہ ہے کہ وہاں انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ جب تک کسی شہر یا ملک کا انفراسٹرکچر بہتر نہیں ہوتا تب تک وہاں ترقی نہیں ہوسکتی اب خواہ وہ میدان تعلیم کا ہو یا صحت عامہ یا پھر کوئی اور ادارہ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں نوکریوں کی خریدوفروخت عام سی بات ہے جس سے نوجوانوں میں قابلیت ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔
سیمینار میں بلوچستان کی اقلیتی براداری کی بھی بات کی گئی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سالانہ 10 لاکھ یاتری بنا کسی خوف و خطر آتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو یہاں محفوظ سمجھتے ہیں جس کا سبب یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں موجود اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت وہاں کا عام مسلمان شہری کر رہا ہوتا ہے جب کہ یہاں کی عالی سطح پر جس طرح عکاسی کی جاتی ہے وہ حقائق کے بلکل برعکس ہے۔