شیخ چلی کا ’خیالی پلاؤ‘ آج تک شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو، لیکن یہ ’ڈش‘ وطن عزیز میں ’انھے وا‘ تیار کی جا رہی ہے اور بھوکے ننگے عوام اوک پھیلائے منتظر ہیں کہ ان کی باری آئی کہ آئی۔ سیاسی شعبدہ باز ایسے ایسے اجزائے تراکیبی کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں کہ سادہ دل تماشائی ہربار فریب کھا جاتے ہیں۔
ہماری نسل کی بدقسمتی ہے کہ عہد موجود میں کئی شیخ چلی بیک وقت موجود ہیں اور سب دعویدار ہیں کہ ان کا ’خیالی پلاؤ‘ ہی کھایا جائے۔ گئے دنوں کی بات ہے جب عمران نیازی نے ریاستِ مدینہ کے نام پر کیا کیا گل کھلائے، ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا جھانسہ دیا گیا، آئی ایم ایف کے منہ پر کروڑوں ڈالرز مارنے کے بجائے تھوکا چاٹ لیا گیا۔ ’معاشی سرکس‘ میں وزیراعظم ہاؤس میں بھینسوں کی بولیاں لگیں، مرغیاں اور کٹے بیچ کر معیشت کو منجدھار سے نکالنے کا کرتب بھی دکھایا گیا لیکن جب کچھ ’ڈیلیور‘ نہ کر سکے تو کہا گیا کہ ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا اور یوں ’نیازی‘ کی بَلا ’باجوہ‘ کے سر ٹھہری۔
پھر ’پی ڈی ایم‘ نے بَیل کو دعوتِ ٹکر دے کر عنانِ اقتدار سنبھالی تو معاشی ناکامیوں کا مبلہ نئے پاکستان کے شیخ چلی پر گرا کر نیا معاشی محل کھڑا کرنے کا چورن بیچا گیا۔ دیوالیہ ہوتے ملک کا وزیر خزانہ ’کوکومو‘ سرکار کو لگایا گیا، اس دوران کوکومو تو خوب چلے لیکن ملکی معیشت مزید بیٹھ گئی، نتیجتاً ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اس ناکامی کا سہرا ’مفتاح‘ کے سر باندھ دیا گیا۔ مریم نواز نے بھی انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا حتیٰ کہ انہیں قربانی کا بکرا بنا کر منجھے ہوئے، جہاندیدہ اور دنیا کے بہترین معاشی ماہر ڈار کو ڈالر کے مقابلے میں اتارا گیا اور مزیدار ’خیالی پلاؤ‘ کے دعوے کیے گئے۔ ڈالر کو 120 روپے تک لانے، پیٹرول سستا اور معیشت ٹھیک کرنے کے دعوے ہانڈی پر چڑھا دیئے گئے لیکن دال نہیں گلی۔ ڈالر 3 سو روپے سے اوپر چلا گیا اور پیٹرول بھی اس کے پیچھے بھاگتا رہا، رہی معشیت تو اللہ جانے اس کا کیا بنا؟ کہنے والے یہی کہتے ہیں کہ کوئی معیشت بارے پوچھے تو کہنا کہ ڈار آیا تھا۔
پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے ہی والی تھیں کہ آئی ایم ایف نے ترقی کرتے خوشحال پاکستان اور اسحاق ڈار کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ایک صحافی نے اس ناکامی پر بات کرنے کی گستاخی تو اسے تھپڑ جڑ دیا گیا اور گارڈز کو حکم دیا گیا کہ اسے سبق سکھائیں۔ صحافی نے اسحاق ڈار سے پوچھا کہ ’آئی ایم ایف معاہدے میں ناکامی کیوں ہو رہی ہے؟‘ ڈار نے برہم ہوتے ہوئے کہا کیونکہ آپ جیسے لوگ سسٹم میں ہیں، صحافی نے کہا ’ہم تو صرف سوال کرتے ہیں‘ اس پر ڈار نے صحافی کا موبائیل فون پکڑتے ہوئے کہا کہ ’کیا چاہتے ہو، خدا کا خوف کرو۔‘ جی ہاں! یہ اضطراب اس بات کا غماز ہے کہ ’ڈار‘ کے پاس دلیل اور جواب نہیں صرف ناکامی ہے اور اعترافِ جرم کو ڈھٹائی سے ٹالا جا رہا ہے، بس اک چِین کا سہارا ہے جس کی وجہ سے اہل وطن چَین کا سانس لے رہے ہیں۔
نئے پاکستان کے شیخ چلی کی طرح جاگتے میں خواب دیکھنے والے اسحاق ڈار اور ان کی تجربہ کاری نے پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنے سے لے کر خوشحالی کا ذمہ اللہ کے حوالے کر دینے تک کا مختصر سفر تیزی سے طے کیا۔ 100 جوتے اور 100 پیاز کھانے کی روایات کو بخوبی نبھایا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہی کام جو ڈار نے کیا وہی مفتاح بہت سستے میں کر رہے تھے پھر اللہ جانے یہ پنگا کیوں لیا گیا۔
آئی ایم ایف کا معاہدہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں اور حکومت نے پانی سر سے اونچا ہوتے ہی پلان بی کے تحت معاشی بحالی کا خیالی پلاؤ میرا مطلب ہے پلان تیار کر لیا ہے ’اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل‘ ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ حکومت کی یہ ہانڈی بیچ چوراہے میں نہ پھوٹے اور غربت و مہنگائی سے بلکتے سسکتے عوام تک بھی اس کا نوالہ پہنچ سکے۔
ادھر سابق صدر آصف زرداری نے میثاق معیشت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی میثاق پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ بھی کارخانے یا فیکٹریاں لگانے کو تیار نہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 13 ارب روپے سے زائد رقم تقسیم کی گئی، خدارا قوم کو بھکاری بنانے کے بجائے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھائیں، یہی کام نئے پاکستان کے شیخ چلی دستر خوان اور پناہ گاہیں بنا کر کرتے رہے ہیں۔
پلان بی کے ضمن میں مقتدر حلقوں کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی صورت پاکستان کو سری لنکا بنانے پر تیار نہیں اور اسٹیک ہولڈرز بھی جانتے ہیں کہ سیاست اور ریاست اسی صورت بچے گی جب معیشت کا پہیہ چلے گا۔ موجودہ صورتحال میں ن لیگ آئندہ انتخابات میں اترنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، سونے پہ سہاگا یہ کہ آصف زرداری بروقت عام انتخابات پر زور دے رہے ہیں۔ اب سیاست اور معیشت بچانے کا ایک ہی رستہ ہے کہ ’خیالی پلاؤ‘ پکانے کے بجائے کڑے اور فوری فیصلے کیے جائیں اور اسحاق ڈار کسی اور سے مطالبہ کرنے کے بجائے خود خدا کا خوف کریں۔