’جی ابّا جی‘

پیر 26 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مرحوم والد مکرم چودھری غلام رسول ساہی کی یاد میں

جب کبھی یادوں کا جھکڑ چلتا ہے تو تیز ہواؤں کے اس شور میں جیسے کوئی میرا نام لے کر پکارتا ہے ’شاہد !‘ ۔۔۔ اور بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے، ’جی ابا جی ‘۔ مگر اس کے ساتھ ہی جیسے سب کچھ تحلیل ہو جاتا ہے،  ہوا کے ساتھ شور بھی تھم جاتا ہے، میرے ارد گرد کی زندگی معمول کی طرف لوٹ آتی ہے۔ گھر، دفتر، بچے، دوست، رشتہ دار سب ہوتے ہیں سوائے اُس ہستی کے جس کی پکار پر میں ’جی ابا جی‘ کہہ کر اُس کے روبرو ہونا چاہتا ہوں۔ مگر حقیقت اس مختلف نہیں کہ:
خیال جس کا تھا مجھے، خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی، سوال میں ملا مجھے
یادوں کا یہ سلسلہ بے اختیار ہوتا ہے۔ آج اس ’یادزار‘ میں سنہ 2007 کا سال اور دسمبر کی 18 تاریخ کا سورج چمک رہا ہے۔ آج عیدالاضحیٰ کا دن ہے اور سوئے اتفاق کہیے کہ آج ہی میری سرکاری تعطیلات کا آخر دن ہے۔ اس صورتحال پر ’فوج ہے موج نہیں‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔
میں نمازِ عید اور قربانی سے فارغ ہو چکا ہوں اور افریقی ملک لائبیریا واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہوں، جہاں میں اقوامِ متحدہ کے ایک امن مشن پر تعینات تھا اور چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔ میری فلائٹ راولپنڈی سے تھی اور امّی اور  بڑے بھائی محمد زاہد نے راولپنڈی ایئرپورٹ تک میرے ساتھ جانا تھا۔ اس موقع پر ابّا جی نے بھی کچھ دور ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ ابّاجی ڈسکہ شہر کی حد تک مجھے الوداع کہنے آئے اور بڑی شفقت سے مجھے رخصت کیا۔
میں لائبیریا آگیا اور زندگی نے مجھے بے پناہ مصروفیات اور ذمہ داریوں کی ڈگر پر ڈال دیا۔ تاہم اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ میں اُن یادوں سے بھی اپنی تنہائیوں اور حوصلوں کی آبیاری کرتا رہا جو میری متاعِ حیات ہیں اور جن کا ہاتھ تھام کر کبھی کبھی میں اپنے بچپن کے اس دور میں چلا جاتا تھا جہاں ابّاجی کے لیے ہم تمام بہن بھائیوں کی تعلیم ان کی اول ترجیح تھی۔
خوش گوار سردیوں کی خاموش راتیں آج بھی میرے خانہ خیال میں جگمگا رہی ہیں۔ ابّاجی رضائی میں ہوتے ، امی جی اُن کے لیے چائے لاتیں جبکہ ہم بہن بھائی ان کے گرد جمگٹھا کی شکل میں بیٹھے ہوتے۔ اباجی باتوں ہی باتوں میں ہمیں انگریزی ٹینسز سمجھانے کے علاوہ گرائمر سے متعلق درجنوں کارآمد باتیں بتاتے ۔ اس دوران ابا جی کی چائے کا پیالہ اکثر خالی ہوجاتا اور وہ امی جی سے دوسرے پیالے کی فرمائش کرتے، جو کبھی پوری ہوتی، اور کبھی ادھوری رہ جاتی۔ اباجی کے سمجھانے کا انداز اس قدر دلچسپ ہوتا کہ پہروں اُن کے پاس سے اُٹھنے کا جی نہیں کرتا۔
مجھے کرکٹ کا شوق تھا مگر میٹرک کے امتحانات سر پر تھے۔ ایسے میں ابّا جی نے پیار بھرا حکم دیا کہ ’پہلے امتحان پھر کرکٹ کا میدان‘۔ میں حسبِ ہدایت پڑھائی میں مشغول ہوگیا۔ امتحانات آئے اور ختم ہوگئے۔ میں آخری پرچے کے بعد اس روز عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو ابّاجی بیٹ تھامے مسجد کے باہر کھڑے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے ہی گویا ہوئے ’لو اب کھیلو‘۔
اس ایک جملے سے گویا کامیاب زندگی کا ایک بنیادی اصول میری روح کی گہرائیوں تک اتر چکا تھا۔ شاید زیرِ لب میں نے یہ کہا ہوگا ’جی ابّا جی‘۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بہن بھائیوں کو اسکول سے چھٹی کرنے کی قطعی اجازت نہیں تھی۔ برسات اور وہ بھی شدید برسات عموماً بچوں کی اسکول سے چھٹی کا بہانہ بن جایا کرتی ہے مگر  ہمارے لیے یہ اور اسی طرح کی کوئی بھی وجہ بے معنی تھی۔ لہٰذا اسکول جانا ہے تو بس جانا ہے۔
ابّاجی کہ یہ تربیت فقط اسکول کی حد تک نہ تھی بلکہ جب ہم بہن بھائیوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو یہاں بھی اُن کی توقع ہم سے یہی رہی کہ ہم سے فرائضِ منصبی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔
ابّاجی سراپا محبت تھے، ایک ایسا سراپا جس میں محبت کی شدت و حدت ایک خوبصورت امتزاج میں ڈھل گئی تھی، اس امتزاج کو محسوس تو کیا جا سکتا تھا مگر الگ الگ کرنا ناممکن تھا۔
ابّاجی میں ایک بات ایسی تھی جس کا ذکر ہم بھائی اکثر کرتے۔ اور وہ بات یہ تھی کہ ’ابّاجی اپنی بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں‘۔
ابّاجی تب بہت خوش ہوتے جب ہم بہن بھائی اپنی والدہ سے محبت کا اظہار کرتے یا ان کی خدمت میں مصروف ہوتے۔ ہم اپنی والدہ سے لاڈ جتاتے تو والد صاحب اس محبت کو اپنی روح میں محسوس کرتے۔ محبت کا یہ ایک عجب روحانی ربط تھا جو ایک طرف تو اپنی اولاد سے جُڑا تھا تو دوسری جانب اپنی شریکِ سفر کے دل سے بندھا تھا۔
جب ابّاجی ہمارے درمیان نہیں رہے، تب ایک روز میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ’میں ابّاجی کے بلندیِ درجات کے لیے روز نوافل ادا کرتا ہوں‘۔ اتنا سننا تھا کہ والدہ محترمہ پر وہی تسکین و سرشاری چھا گئی جو کبھی ابّاجی کے چہرے پر ہوتی تھی۔ والدہ نے میری اس بات پر خاصی خوشی کا اظہار کیا۔
بات میری لائبیریا روانگی سے شروع ہوئی اور پھر ابّاجی کی یادوں کی ہمرکابی میں 10 مئی 2008ء تک آ پہنچی۔ اس روز مجھے بڑے بھائی محمد زاہد نے کال کر کے بتایا کہ ابّاجی دنیا میں نہیں رہے۔ یہ اطلاع میرے لیے ایک سوال بن گئی۔ چند روز پہلے ہی تو امی نے ابّاجی کی صحت کے حوالے سے سب اچھا ہے کی خبر سنائی تھی۔ پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟
چند روز پہلے جو کچھ انہوں نے بتایا تھا وہ بھی سچ تھا اور آج جو کچھ میں سُن رہا تھا وہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی۔ پھر یاد آیا کہ ابّا جی کی مجھے ڈسکہ کی حد تک الوداع کرنے کو آنے کی معصومانہ فرمائش نما خواہش کے بارے میں سوچتا ہوں تو کُھلتا ہے کہ شاید اللہ نے اُن پر واضح کر دیا تھا کہ یہ اُن کی مجھ سے آخری ملاقات ہے۔ یہ اُن کا اپنے بیٹے کے ہمراہ آخری سفر ہے۔ اس سے آگے مجھے زندگی کا یہ سفر ان کے سائے شفقت کے بغیر طے کرنا ہوگا۔
ایسے میں ذہن اس ازلی حقیقت کی طرف چلا گیا جو خالقِ کائنات نے کلامِ الٰہی میں بیان کر دی ہے کہ ’ہم اسی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
میں اور میرے سینئر میجر ماجد فاروقی ، جو میرے ساتھ ہی تعینات تھے، نے بڑی کوشش کی کہ مجھے لائبیریا سے فلائٹ مل جائے اور میں جنازے میں شرکت کر سکوں مگر میری خواہش کو رضائے الٰہی کی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ آج ابّاجی کو ہم سے جدا ہوئے برسوں بیت چکے ہیں مگر میری زندگی کا کوئی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہیں۔
جب  کسی سفر  کے لیے پابہ رکاب ہوتا ہوں تو ابّاجی کی کراچی سے واپسی کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کے لیے میرے پاس آئے اور واپسی پر میرا خرچ بچانے کے لیے مجھے کہنے لگے کہ ’میں ٹرین پر سفر کرنے سے زیادہ خوش ہوتا ہوں، مجھے جہاز کا سفر پسند نہیں ہے‘۔
جس طرح والدین اپنی اولاد کو سمجھتے ہیں، اسی طرح اگر اولاد اپنے والدین کو سمجھنا چاہے تو پھر اُس پر بہت کچھ روشن ہو جاتا ہے۔ میں فوراً بات کی تہہ تک پہنچ چکا تھا کہ ابّاجی جہاز پر ٹرین کو ترجیح صرف اور صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ میری جیب پر بوجھ نہ پڑے۔ جب کہ مَیں تو اسے اپنے لیے سعادت سمجھ رہا تھا کہ ابّاجی بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوں۔ سو میں نے منت سماجت ہی سے سہی، ابّاجی کو راضی کر لیا کہ وہ واپسی کے لیے ہوائی سفر اختیار کریں۔
ابّاجی محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ تھے، اور اپنی پنشن وصول کرنے ہر ماہ ڈسکہ سے گجرانوالہ جاتے تھے۔ ہمارے بارہا اصرار پر بھی انہوں نے اپنی پنشن کو ڈسکہ منتقل نہیں کروایا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم تمام ریٹائرڈ دوست اُس دن اکٹھے ہوتے اور باہم مل کر اگلے ایک ماہ کے لیے تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔
خدا کی کرنی ایسی کہ اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے یعنی اپریل 2008ء میں انہوں نے اپنی پینشن ڈسکہ ٹرانسفر کرا لی، جب کہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں اُن سے اصرار نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور انہوںی یہ ہوئی کہ اپریل ہی میں وہ اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملے اور اگر کسی دوست سے کوئی شکر رنجی تھی تو اس کو بھی دور کیا۔
والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’میرا فوجی بیٹا جو مجھے دو دفعہ جی کہتا ہے، اس کی پاکستان واپسی میں کتنا عرصہ رہ گیا ہے؟‘۔ یعنی وہ شدت سے میرا انتظار کر رہے تھے، مگر شاید قسمت کو ہماری ملاقات منظور نہ تھی۔
ابّاجی کی اس محبت کا جواب میرے پاس اس اعتراف کے سوا کچھ نہیں کہ:
’باپ سِراں دے تاج محمدؒ، تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘
مَیں جب کبھی بچوں کی تعلیمی اسناد دیکھتا ہوں تو ابّاجی کا وہ رجسٹر یاد آجاتا ہے جس میں وہ خاندان سے متعلق چھوٹی بڑی ہر نوعیت کی معلومات درج کرتے تھے۔ ابّاجی کے اندراجات کا حاصل یہ دستاویز آج ہمارے خاندان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس رجسٹر سے اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ سفر آخرت کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔
آج جب ہر طرف عید الاضحیٰ کی تیاریاں زور و شور پر ہیں، میرے آنکھوں کے سامنے اباجی سے آخری ملاقات کا منظر گھوم رہا ہے۔ ساتھ ہی میرے  دل میں ابّاجی کے جنازے میں شرکت نہ کرسکنے کی کسک ایک ٹیس کی طرح اٹھتی ہے۔ میں نے اپنی ایک بیٹی کا نام اباجی کی نسبت سے عائشہ رسول رکھا ہے ۔ اللہ کی قدرت کہ میری یہ بیٹی پابندیِ وقت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہو بہو اپنے دادا کا نقش ثانی ہے۔ میں ہمیشہ اُس کو پورا نام لے کر مخاطب کرتا ہوں جس سے  نہ صرف میرے دل کو تسکین ملتی ہے بلکہ یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے اُس نے جواب میں کہا ہو ’جی اباجی‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp