پاکستان میں معاشی صورتحال کافی عرصے سے دگرگوں ہے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی سکڑ کر رہ گئے ہیں جب کہ گزشتہ چند برسوں سے کورونا کی عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کو درپیش مسائل کی وجہ سے بیرون ملک ملازمتوں کی راہیں بھی مسدود ہو کر رہ گئی تھیں لیکن اب وطن عزیز کے نوجوانوں کے لیے جرمنی اور جاپان سے تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے جس سے بلاشبہ ایک بڑی تعداد استفادہ کر سکتی ہے۔
ملک کے نوجوانوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ جرمنی اور جاپان کو ایک بڑی افرادی قوت درکار ہے اور دونوں ممالک میں بہتر روزگار کے متلاشی افراد کی کھپت کے حوالے سے آئندہ 10 برسوں کے اعدادوشمار بھی سامنے آگئے ہیں جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے ہم وطن ایک بہتر زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ جاپان کو آئندہ 10 سال تک 35 لاکھ افراد کی ضرورت ہے اور اسی طرح جرمنی کو 7 سے 8 لاکھ افراد درکار ہیں۔
پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ ایسوسی ایشن کے ترجمان محمد عدنان پراچا نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ 2022 میں 8 لاکھ 29 ہزار لوگ روزگار کی غرض سے عرب ممالک اور یورپ گئے۔ سنہ 2023 میں اب تک 4 لاکھ کے قریب لوگ روزگار کے لیے پاکستان سے باہر جا چکے ہیں۔
عدنان پراچا نے کہا کہ غیر قانونی راستوں سے بیرون ملک جانے والوں کو آگاہی نہیں دی جا رہی، حکومت پاکستان، ہماری منسٹری اور ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو اس میں دلچسپی ظاہر کرنا پڑے گی تا کہ مختلف شہروں میں اورسیز پروموٹرز کے ذریعے بتایا جا سکے کہ ایک سسٹم ہے جس کے تحت شہری کن کن شعبوں میں ملک سے باہر جا سکتے ہیں اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ اکھٹا کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فی الوقت 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب، 16 لاکھ متحدہ عرب امارات اور 2 لاکھ قطر میں کام کر رہے ہیں جو بیرون ملک پاکستانیوں کا 60 فیصد بنتے ہیں جب کہ باقی 40 فیصد دنیا کے دیگر ممالک میں کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ میں کمی باعث تشویش ہے جو مالی سال 2022 میں 30 ارب روپے تھے جو کم ہو کر رواں برس 27 ارب ہو گئے ہیں۔ ہمیں غیر قانونی کام بند کرنا پڑیں گے، انٹر بینک، اوپن مارکیٹ اور حوالہ ہنڈی کے ریٹ میں جب بہت فرق آجائے گا تو لوگ حوالہ اور ہنڈی کی طرف جائیں گے۔
ترجمان پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس وقت جاپان میں پوری دنیا سے 3 لاکھ 50 ہزار افراد کی سالانہ ڈیمانڈ ہے جو آئندہ 10 سال تک ہے۔ اسی طرح جرمنی کو 7 سے 8 لاکھ افراد کی ضرورت ہے، دیگر یورپی ممالک میں بھی 12 سے 13 لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت عرب ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں بھی افرادی قوت کی ضرورت ہے جہاں ہماری حکومت کو توجہ دینی ہوگی اور اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو آن بورڈ لینا ہوگا۔ حکومت کو مختلف تجاویز دی تھیں کہ 4 سے ساڑھے 4 لاکھ نوجوان ہر سال گریجوایٹ ہوتے ہیں، ان نوجوانوں کو ہم یورپ جاپان اور کوریا کے لیے تربیت فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے پاس زرمبادلہ آ سکے۔
عدنان پراچا نے کہا کہ عرب ممالک سے خارجہ پالیسی میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ ان کی حکومتوں سے بات کرکے پاکستان کا کوٹا بڑھایا جا سکے کیوں کہ ہمارے پاس بڑھے لکھے اور تربیت یافتہ لوگوں کی کمی نہیں بس ایک مربوط طریقہ کار بنانے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کام شروع کرنا چاہیئے۔
ترجمان کے مطابق حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں سے بجٹ میں 33 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے جو مشکل سے حاصل کیا جائے گا تاہم پالیسی میں بہتری لائی جائے تو یہ 40 ارب روپے سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولیات دی جائیں تاکہ وہ قانونی راستے پر چل کر ملک کو فائدہ پہنچا سکیں۔