بہت اچھا ہوا کہ میں نے دنیا نہیں دیکھی ورنہ بعد میں زیادہ تکلیف ہوتی۔
اب میں نے زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے اور میری زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ بصارت مسئلہ اور مسئلوں کا حل بھی ہے۔
وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں بصارت سے محروم روبینہ شاد کہتی ہیں کہ کسی چیز کا حاصل نہ ہونا اتنی تکلیف نہیں دیتا لیکن پا کر کھو دینے کا درد زیادہ ہے۔
روبینہ شاد نے کہا کہ ہم دہری اذیت کے گرفتار مسافر ہیں جن کے پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ بصارت سے محروم لوگوں کے لیے اس معاشرے میں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہے لیکن جہاں تکلیف ہو وہاں آسانیاں بھی آ جاتی ہیں۔
تعلیمی سفر میں مشکلات پر بات کرتے ہوئے روبینہ شاد کہتی ہیں کہ بصارت سے محروم ہوتے ہوئے چھوٹی سی عمر میں بسوں کے دھکے کھانا، کتابوں کی عدم دستیابی، اساتذہ کا غیر تربیت یافتہ ہونا اور رائٹرز کے مسائل سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں، اور یہ مسائل آج تک طلباء کو تنگ کرتے ہیں۔ اور اس تعلیمی سفر میں مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
روبینہ کہتی ہیں کہ نابینا افراد کو چاہیے کہ اب وہ ٹیکنالوجی کی طرف آئیں کیونکہ اس میں بصارت سے محروم افراد کے لیے بہت سی چیزیں ہیں جس کے ذریعے وہ لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔
اپنی زندگی کے ناخوشگوار واقعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مجھے میٹرک کے امتحانات کے لیے رائٹر کی اشد ضرورت تھی جس کے لیے میں نے اپنی بڑی بہن کا انتخاب کیا تو انہیں یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ انہوں نے پرائیوٹ ادارے سے میٹرک کیا ہے اس لیے ان کو رائٹر نہیں رکھ سکتے۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ جب میں نے ایک اور بچی سے بات کی تو انہوں نے حامی بھر لی جس کے لیے مجھے اس بچی کے اسکول سے اجازت نامے کی ضرورت تھی لیکن پرنسپل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اور جب میں نے ان سے آفس کے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا۔ اور اس کی مجھے بہت تکلیف ہے۔ حالانکہ میں نے زندگی میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن انسان تکلیف دہ لمحات بھول نہیں سکتا۔
تعلیمی کیرئیر کی کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے روبینہ کہتی ہیں کہ میرا تھیسز اب کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آ چکا ہے، اس کو اردو ٹائپنگ میں حرف بہ حرف میں نے خود ٹائپ کیا ہے، عموماً اس میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ اردو کے سافٹ ویئر پر اس طرح کام نہیں ہوا جس طرح انگریزی میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسان میں ہمت ہو اور وہ واقعی کچھ کرنا چاہتا ہو تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے لیے مواقع نہیں ہیں، جذبہ ہو تو مواقع آپ کے سامنے خود آ جاتے ہیں آپ کو صرف اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ جب پڑھ لکھ کر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو ہمیں یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے کہ آپ کام کیسے کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہوں کہ آپ سارے کام نہیں کر سکتے لیکن اللہ نے کسی کو بے کار پیدا نہیں کیا، اس لیے ہم جیسے طالبعلموں سے ان کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جا سکتا ہے۔
نابینا افراد کی شادیوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے روبینہ کا کہنا تھا کہ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ مرد حضرات کو تو رشتے مل جاتے ہیں لیکن خواتین سے نابینا مرد بھی شادی نہیں کرتے اور وہ دوسری خواتین کو ترجیح دیتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں نابینا خاتون سے شادی ہو گئی تو کام کیسے ہو گا۔ لیکن دنیا میں ہر چیز کا متبادل ہوتا ہے ہم تھوڑا سا دل بڑا کریں تو ہر کام ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے معاشرے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔
پیشہ وارانہ زندگی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب میں پہلی بار نوکری کے لیے گئی تو سب کا انداز مختلف تھا لیکن اب ان کا انداز مختلف ہے۔ اب وہ میرے ساتھ بیٹھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب تک لوگ آزماتے نہیں ہیں ان کو اندازہ نہیں ہوتا۔
روبینہ شاد کی ایک غزل جسے ان کے بھائی نزاکت علی شاد نے کمپوز کیا تھا وہ بہت مقبول ہوئی اور انہوں نے خوب داد بھی سمیٹی۔ شاعری کے شوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے روبینہ کا کہنا تھا کہ میٹرک سے شروع ہونے والا شاعری کا سفر ابھی بھی چل رہا ہے۔
اپنی پہلی نظم “اضطراب” کے اشعار سناتی ہیں
محبت ہو گئی تم سے جبھی تو ہوش ہیں گُم سے
نہ بے چینی نہ راحت ہے، یہی شاید محبت ہے
عجب الجھن میں یہ دل ہے، نہ رستہ ہے نہ منزل ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، وہ دل سے کیوں نہیں جاتا
عجب دل کا یہ عالم ہے کہ انجانا سا اِک غم ہے
الٰہی کچھ کرم کر دے، میرے اس غم کو کم کر دے
روبینہ شاد کے بھائی نزاکت علی شاد جو انہی کی طرح بصارت سے محروم اور گلوکار ہیں کہتے ہیں کہ مجھے بچپن سے موسیقی کا شوق تھا۔ اور یہ شوق مجھے اپنی پسندیدہ گلوکارہ سارہ رضا کو دیکھ کر پیدا ہوا۔
دو ہزار سترہ میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں استاد سرفراز احمد صاحب کے پاس میرا ایڈمیشن ہوا، تب سے اب تک میں ان کے پاس سیکھ رہا ہوں، موسیقی کے تمام راگ میرے استاد نے مجھے سکھائے لیکن اس سے کہیں زیادہ محنت سے میں نے یہ راگ سیکھے۔
نزاکت علی شاد بتاتے ہیں کہ یہ سب سیکھنے کے لیے مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، فیس کے پیسے، پھر پک اینڈ ڈراپ کا مسئلہ درپیش تھا لیکن پھر میں نے اکیلے ہی آن لائن ٹیکسی پر سفر کرنا شروع کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نابینا افراد کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں ہے، کتابوں کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش آتا ہے، بریل ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے نابینا افراد تعلیم حاصل کرتے ہیں، میٹرک تک یہ کتابیں دستیاب ہوتی ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے یہ کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔