پی ٹی آئی کا حصہ رہنے پر افسوس، اب اس جماعت کا کوئی مستقبل نہیں: ناز بلوچ

اتوار 9 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی سیکریٹری ناز بلوچ نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کی مگر 9 مئی کو ہونے والے واقعات نے ایسے زخم اور ایسے دھبے چھوڑے ہیں جن کو مٹانا مشکل ہے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کسی نے ایسی حرکت نہیں کی جو 9 مئی کو کی گئی۔ اپنی ہی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، شہدا کی یادگاروں کو جلایا گیا۔ یہ بہت خوفناک واقعہ تھا، چند کلومیٹر دور واہگہ بارڈر تھا، ایسا کر کے وہاں کیا پیغام پہنچایا گیا۔

’اگر کوئی سیاسی جماعت ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلے گی تو وہ ملکوں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے کارکنان کو ورغلا کر اور بھڑکا کر متشدد رویوں پر اکسائے گی تو یہ درست نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسی رویے کی وجہ سے انہوں نے پارٹی چھوڑی اور وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ اب اس جماعت کا کوئی نظریہ ہی نہیں‘۔

2014 کا دھرنا

ناز بلوچ نے بتایا کہ 2014 کے پی ٹی آئی دھرنے میں انہوں نے ایک فعال کردار ادا کیا لیکن اب یاد کرکے افسوس ہوتا ہے۔ 2014 کے پی ٹی آئی دھرنے کے وقت میں مرکزی نائب صدر تھی، پی ٹی آئی کی میڈیا ترجمان اور میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی کی ممبر بھی تھی۔ اس لئے میڈیا کے ساتھ میرا بہت زیادہ تعلق تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا تو بین الاقوامی طور پر یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان میں ایک غیر یقینی صورتحال ہے اور پاکستان کی جمہوری حکومت اب گئی کہ تب گئی اور اس چیز کا ملک کو نقصان ہوا کیونکہ کون اس طرح کے ملک میں سرمایہ کاری کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب جب میں اس کا تجزیہ کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمان کی توقیر کم کرنے کی سیاست کی اور 2014 کا دھرنا اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

ناز بلوچ نے کہا 2014 کا دھرنا ایک سازش تھا یا نہیں اس طرح کی باتیں دوسرے تیسرے درجے کی قیادت کو نہیں بتائی جاتیں۔ اگر ہمیں اُس وقت پتہ ہوتا تو بطور محب وطن پاکستانی ہم کبھی بھی اس طرح کی چیزوں کا حصہ نہ بنتے۔

پی ٹی آئی چھوڑ کے پیپلزپارٹی کیسے جوائن کی؟

اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے ناز بلوچ نے کہا کہ میں نے 2017 میں پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑا اور پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کی۔ پیپلزپارٹی میرے لیے کوئی نئی جماعت نہیں تھی، میرا خاندانی تعلق اس پارٹی کے ساتھ تھا اور جب میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ تھی، تب بھی اگر کوئی مجھ سے سیاست میں رول ماڈل کا پوچھتا تھا تو میرا جواب ہوتا تھا محترمہ بینظیر بھٹو۔ بی بی شہید کی برسی یا ان کے یوم پیدائش پر ہمیشہ میں ٹوئٹ کرتی تھی اور اس بہادر اور پُرعزم خاتون کو خراج عقیدت پیش کرتی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کیوں چھوڑی؟

اِس سوال کے جواب میں ناز بلوچ نے کہا کہ ابتدائی طور پر یہ کہا گیا کہ نوجوان قیادت کو سامنے لائیں گے، پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت ہے لیکن پھر اس کے بعد الیکٹیبلز آنا شروع ہوئے جن کی آمد کے ساتھ ہی پارٹی کے اندر گروہ بندی ہو گئی، ’یہ جی پرویز خٹک گروپ‘ ہے اور ’یہ شاہ محمود قریشی گروپ‘ ہے، لوگوں نے ان گروپس کے ساتھ اپنی وفاداریاں استوار کر لیں اور پھر پارٹی کے اندر تقسیم شروع ہو گئی جس کے بعد نظر آنے لگا کہ یہ وہ نہیں ہے جو لوگوں سے کہا گیا۔

ناز بلوچ کا کہنا تھا کہ 2018 کی کابینہ میں آپ کو کوئی بھی نوجوان چہرہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ وہی پیراشوٹرز تھے جو الیکشن لڑ کے آ کر پارٹی میں شامل ہو گئے اور وزیر بن گئے۔ یہ چیزیں میں پہلے ہی دیکھ چکی تھی اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے بروقت سمجھ آ گئی۔

ناز بلوچ نے کہا کہ میرا ذاتی طور پہ کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس سے میں دل گرفتہ ہوئی۔

پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا

ناز بلوچ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور گالم گلوچ کا کلچر پی ٹی آئی نے متعارف کرایا جو کہ بہت افسوسناک ہے۔ آپ کسی کی سیاست پر بات کریں لیکن یہ ذاتیات پر باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں نے کبھی کسی کی ذاتی زندگی پر حملہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی چھوڑنے کے کچھ دن تک مجھے بہت زیادہ ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ دن بعد وہ اکاؤنٹ جو میرے گن گاتے تھے اب مجھے گالیاں دینا شروع ہو گئے تھے اور مجھے لگا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔

ناز بلوچ نے کہا کہ میں ہر پلیٹ فارم پر کہتی ہوں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں، مثبت تنقید کریں، ذاتیات پر تنقید نہ کریں۔

کیا اکتوبر میں انتخابات ہوں گے اور پیپلزپارٹی کی کیا صورتحال ہو گی؟

اِس سوال کے جواب میں ناز بلوچ نے کہا کہ اگست میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہو رہی ہے، انتخابی عمل ہونا ہے اور پیپلزپارٹی نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری ایک دوراندیش سیاستدان ہیں، مشکل وقت میں مشکل فیصلے کرنا جانتے ہیں، پنجاب سے ہمیں بہت اچھا ریسپانس مل رہا ہے، جنوبی پنجاب سے جوق در جوق لوگ ہمارے ساتھ آ رہے ہیں اور بلوچستان میں ہماری جیتنے کی پوزیشن بن رہی ہے۔ آصف علی زرداری انہی تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے بہت پراعتماد نظر آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آئندہ حکومت پیپلزپارٹی بنائے گی۔

پیپلزپارٹی کے خلاف میڈیا پر پروپیگنڈا کروایا جاتا ہے

سندھ میں پیپلزپارٹی کی انتظامی کارکردگی کے سوال پر ناز بلوچ نے کہا کہ میڈیا میں ان کی جماعت کے خلاف منفی پروپیگنڈا بہت کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین ہمیشہ پروپیگنڈا کے ذریعے پیپلز پارٹی کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جھوٹ پر مبنی خبریں چلائی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں میڈیا کو قصوروار نہیں سمجھتی لیکن میڈیا پر پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کروایا جاتا ہے، پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں بہت پروپیگنڈا کروایا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں علاج کی سہولیات پورے ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی پیپلزپارٹی نے شروع کیا، ہم نے خدمت کی ہے تو کراچی سے ہمارا میئر منتخب ہوا۔

اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے پیپلز پارٹی کی پالیسی سے انحراف کیا؟

ناز بلوچ نے کہا کہ جب آپ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ ہوتے ہیں تو آپ اسی لیے اس کا حصہ بنتے ہیں کہ آپ اس کی پالیسیوں اور نظریات سے اتفاق کرتے ہیں۔

ناز بلوچ نے کب سیاست کا آغاز کیا؟

اپنی ابتدائی زندگی اور سیاست کے آغاز کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناز بلوچ نے بتایا کہ ان کا بچپن کراچی میں گزرا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ ناز بلوچ کا تعلق بلوچستان کے رند قبیلے سے ہے اور ان کے والد پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے لیکن 2011 میں ناز بلوچ نے سیاست کا آغاز پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میری سیاست کا آغاز اور میری شادی ایک ہی سال میں انجام پائی۔ خاندانی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق تو تھا لیکن والد نے کبھی اپنے فیصلے مسلط نہیں کیے اور ہماری رائے اور ہماری خواہش پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔

ناز بلوچ سیاست میں کیوں آئیں؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی شہر میں ان کا بچپن گزرا اور جب انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو دیکھا کہ کراچی میں ایک خوف کا ماحول ہے، لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے روزانہ لوگ مرتے ہیں، روزانہ دس بیس لوگ کی ہلاکت ایک معمول کی بات تھی۔ تو میرے اندر یہ سوال اٹھتا تھا کہ کب یہ قتل و غارت بند ہو گی، کب امن بحال ہوگا اور ان حالات میں، میں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

پی ٹی آئی میں اپنی شمولیت کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک لہر چلی ہوئی تھی کہ ایک نئی پارٹی ہے اور نوجوانوں کی پارٹی ہے، اس وقت پی ٹی آئی میں فوزیہ قصوری، زہرا شاھد جیسی بہت پڑھی لکھی خواتین تھیں جن لوگوں نے مجھے متاثر کیا۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آٹی نے جس طرح سے دہشت پھیلائی اسی دہشت کو روکنے کے لیے تو میں نے سیاست کا آغاز کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لیاری کے ایک بہت مشکل علاقے سے میں نے الیکشن لڑا، جہاں تنگ تنگ گلیاں ہیں اور کچھ پہاڑی علاقہ بھی ہے اور جب میں مہم کے لیے جاتی تھی تو لوگ مجھے کہتے تھے کہ آپ واحد سیاستدان ہیں جو ان علاقوں میں آتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp